تحریر: شاہ بانو میر
سورت النور میں اللہ پاک نے جہاں خواتین پر ہونے والے مسائل کا ذکر کیا اس میں ایک بہترین پیغام جس سے ہم سب جانتے بوجھتے انجان بنے ہوئے ہیں وہ ہے دوپٹہ کیسے اوڑھا جائے ؟ اپنے سینوں پر اپنا آنچل ڈالے رکھیں یہ بہت اہم نقطہ ہے اس نقطہ کو خواتین درست انداز میں نہیں سمجھتیں خاص طور سے وہ خواتین جو سر کو ڈھانپ لیتی ہیں اور دوپٹہ پیچھے پھینک دیتیں ہیں یہ بالکل غلط طریقہ ہے دوپٹے کو سر پے رکھ کر سینے کو ڈھانپنا ہے اوڑھینوں کے آنچل سینوں پر رکھیں خمر سر کے کپڑے کو کہا جاتا ہے کہ سر پر بھی اور سینے پر بھی اسلام کے ہر حکم میں مصلحت ہے اور حفاظت کا عنصر ہے۔
اسلام میں دوپٹہ نہیں ہے یہ بات کئی لوگ کہتے ہیں جو سراسر غلط ہے حتیٰ کہ جنت کے مقام پر بھی خواتین کا دوپٹہ اتنا حسین ہوگا کہ چمک دور سے نگاہوں کو خَیرہ کریں گے دوپٹے کیلئے تاکید ماؤں کو بچیوں کو کرنی چاہئے یہ عورت کے لباس کا اہم ترین حصہ ہے اس سے اعراض ہرگز نہیں برتا جا سکتا ہے ہم نے حکمت کو کبھی نہیں سمجھا اذان ہوتے ہی جو چیز سر پے ڈال کر اس کا تقدس کیا جاتا ہے وہ دوپٹہ ہے نکاح کرتے ہوئے سر پے جو چیز اوڑھا کر اس مبارک وقت کو حفاظت کا حصار دیا جاتا ہے وہ دوپٹہ ہے۔
جدت پسند خواتین بچیاں جتنا مرضی لباس کو جدید بنائیں مگرآج بھی خاندان کے بزرگوں کو دیکھتے ہی آج بھی مؤدب ہو کر جو چیز اوڑھ کر سر جھکا کر ان سے دعا لی جاتی ہے وہ دوپٹہ ہے خاندان کے رشتے داروں کی گھر میں آمد کو آج کے دور میں منع نہیں کیا جا سکتا ان کے ساتھ مناسب انداز میں سامنے آنے کیلئے دوپٹہ کی حیثیت آج بھی مسلمہ ہے ہر گھر میں والدین کے ساتھ بچیاں رہتی ہیں بھائی کے ساتھ باپ کے سامنے کسی اور انداز کا تقاضہ کرتا ہے وہ خواتین جو سر پے دوپٹہ اوڑھ کر اس سے اپنا جسم مناسب انداز میں ڈھانپتی نہیں ہیں ان کیلئے فکر کا سوچ کا مقام ہے۔
اسلام نے عورت کو محتاط رویہ دے کر شان دی ہے تا کہ خرابیاں کم سے کم ہوں خواتین کو اللہ پاک نے بہت شعور دیا ہے آج دیار غیر میں اسلام کا بچیوں کی بہت فکر ہے آج اس فکر میں ایک فکر دوپٹہ اسکارف کو جسم ڈھانپنے کیلئے شامل کر لیں گھر میں ملازم ہیں ڈرائیورہیں ایسے میں عورت کیلئے احتیاط بہت ضروری ہے جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو جو مرضی کر آج سر سے دوپٹہ کھینچ کر بے حیائی کی طرف لے جانے والے بہت لیکن قرآن پاک اور اللہ کا فرمان بہت کم لوگ آگے پہنچاتے ہیں کہ حیا قائم رہے اس کے لئے آئے اجتماعی دعا کی طرف آئیں۔
عورت کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ عورتوں میں زیادہ محفوظ اور زیادہ آرامدہ محسوس کرتی ہیں
آئیے سورت نور کی ان آیات کی روشنی میں کسی پر تہمت بغیر مکمل ثبوت کے لگانے سے بہت گریز کریں اور لباس کی حفاظت اس طرح ممکن ہے کہ دوپٹہ اس طرح اوڑھا جائے جو سر اور جسم کو ڈھانپ سکے سورت کے آخر مین شہر کے شرفاء کی دل لگی کیلئے طوایف نامی طبقہ جو بنایا گیا اس کے لیے کہا گیا کہ اللہ پاک سے توبہ کر لو اگر تم کسی مجبوری کی وجہ سے اس پیشے میں ہو تو معافی مانگو اللہ غفور و رحیم ہے۔
سبحان اللہ ان کے دلوں میں جب اللہ کا نور آئے گا تو ایسی عورتیں بدلتی دیکھی گئی ہیں اسی لئے اس سورت کا نام سورت النور رکھا گیا کہ ان اسباق میں جو خواتین کی زندگیوں کو برباد کرنے کا سبب بنتے ہیں ان سے ہدایت کے نور کو پا کر اس اندھیرے سے نکلنے کے تمام محرکات بیان کئے گئے عورتوں پر مکمل تحقیقات سے پہلے مکمل ثبوت کے بغیر تہمت بہتان نہ لگاؤ گھروں میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرو دوپٹوں کو سینے پر اور سر پے اوڑھو تا کہ جسم کو چھپایا جا سکے۔
عورت کو عیاشی کا ذریعہ بنانے والے مردوں کی طرف سے اس مجبوری کو کیسے ختم کیا جاتا ہے؟ کہ اللہ سے یہ عورتیں توبہ استغفار کریں اور یقینا اللہ معاف کرنے والا غفور و رحیم ہے آٰئے قرآن پاک کی اس خوبصورت سورت کو پڑھ کر عورتیں اپنی شان اپنا معیار اسلام کی نظر سے دیکھ کر اپنی اصلاح کریں اور مزید مرتبہ اور اہمیت کی حامل اپنی ذات کو ہدایت کے نور سے منور کر کے اسلام کی شان کو واضح کری۔
تحریر: شاہ بانو میر