لاہور (ویب ڈیسک) مانچسٹر کے ایک ریسٹورنٹ کے ہال میں مولانا طارق جمیل تقریر کر رہے تھے ۔مولانا جوش خطابت میں حور و غلمان سے سرکتے ہوئے آثار قیامت کی طرف آن نکلے ۔ اسٹیج پر موجودتقریر کرنے کیلئے اپنی باری کے منتظر پاکستان کے نامور قانون دان ڈاکٹر بابر اعوان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے: نامور کالم نگار فاروق عالم انصاری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔’’اے ایمان والو! قیامت کے دن سے ڈرو ۔ وہاں آپ کو ڈاکٹر بابر اعوان جیسا کوئی بڑا وکیل بھی نہیں چھڑوا سکے گا‘‘۔ قیامت صرف روز سزا ہی نہیں ۔ یہ روز جزا بھی ہے ۔ گنہگار جانتے ہیں کہ ہمارے پلے کچھ نہیں۔ اسی لئے ہم روز قیامت کو روز سزا ہی گردانتے ہیں۔ورنہ خدا کی رحمت کے خزانے بے شمار ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ملاقات میں والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور ، حضرت مولانا بشیر انصاری کے بھاری تن و توش کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے ۔ مولانا اگر دل میں خوف خدا ہو تو کیا آدمی اتنا بھاری بھرکم ہو سکتا ہے ؟ یہ معروف شیعہ عالم دین فوراً بولے ، ہاں بے شک ہو سکتا ہے ۔ اگر اسے خدا کی رحمت پر رتی برابر بھی یقین ہو۔ بیشک اسکی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہئے ۔ خیر کسی مصیبت اور عذاب کو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ہم پر قیامت گزر گئی ۔روز مرہ اور محاورہ یہی ہے ۔ بہر حال 24دسمبر2018ء بروز پیر وار میاں نواز شریف فیملی کیلئے قیامت کادن تھا۔ اس قیامت کی گھڑی میں ذہین فطین وکیل خواجہ حارث کی سرتوڑ محنت اور سارا کہا سنا اکارت گیا۔ جج احتساب کورٹ نے میاں نواز شریف کیخلاف فیصلہ سنا دیا۔ اس قیامت کے خدو خال دیکھئے ۔میاں صاحب کو قید ۔ جرمانہ ۔ جائیداد کی ضبطی ۔ غیر ممالک میں بسلسلہ کاروبار مقیم انکے دونوں بیٹوں کے دائمی وارنٹ گرفتاری ۔شیخ رشید تازہ اطلاع لائے ہیں کہ مارچ 2019ء تک جھاڑو پھر جائیگا۔اس اطلاع میں کئی دیگر فیملیز کیلئے قیامت برپا ہونے کی خبر ہے ۔پیپلز پارٹی میں صنم بھٹو کی تیز سرگرمیاں شیخ صاحب کی پیشین گوئی کی تائید کر رہی ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے اب آصف زرداری اور فریال تالپورسمیت بہت سوں کی بھی خیر نہیں۔ صدر ایوب خاں نے اپنے زمانہ میں سیاستدانوں کی بہت ’’پھولا پھالی‘‘کی تھی۔ لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ وزیر دفاع ایوب کھوڑو سے صرف وہاںکی مقامی میونسپل کمیٹی کے ملکیتی ٹائر ٹیوب ہی برآمد ہو سکے ۔ پھر انکے زمانے میں چہیتے سیاستدانوں کا معاملہ بھی روٹ پرمٹوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ فیض ؔ نے کہا تھا ۔ ’ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت‘۔ جنرل یحییٰ کا داغ داغ دامن بھی کسی مالی کرپشن سے داغدار ہر گز نہیں تھا۔ آگے بڑھئے تو کرپشن کا دوسرادور شروع ہوتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے اس زمانہ میں کرپشن اتنی بڑھ گئی کہ اس کی پردہ پوشی کرنے میںاوجڑی کیمپ کا خونی واقعہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے سیاست بہت نفع بخش کاروبار بن گئی ۔پھر تو میاں نواز شریف اور آصف زرداری نے اقتدار کی واریاں مقرر کر لیں۔ وہی ایسٹ انڈیا کمپنی والا زمانہ واپس آگیا۔ انگریز یہاں سے لوٹ کر دولت برطانیہ لے جایا کرتا تھا۔ ہمارے سیاستدان بھی دوبارہ یورپ کے بینکوں کو بھرنے لگے ۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار پر بلا شرکت غیرے قابض تھا ۔ اس نے اس کرپشن کے خلاف جنگ شروع تو کی لیکن سیاستدان اتنے طاقتور نکلے کہ اسے بھی آخر کار این آر او کے میدان میں ہتھیار پھینکنے پڑے ۔ اس پسپائی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی بجائے پرانے زمانے کے روایتی قبیلے ہیں۔ کوئی قبائلی سردارصرف کرپشن پر اپنے قبیلے کی سرداری سے معزول نہیں کیاجاتا ۔ وہ جیسا تیسا بھی ہو اسکی اطاعت اسکے قبیلے کے ہر فرد پر فرض ہے ۔قبیلے کے ارکان اپنا یہ فرض نبھانے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔ قبیلہ بھی اپنے تمام افراد کے جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے ۔قبیلے کے کسی فرد کے قتل کا بدلہ قبیلے کے ہر فرد پر قرض ہوتا ہے ۔ جمہوریت کیلئے کوڑے کھانے والے دانشور قیوم نظامی، پاکیزہ شہرت والے رضا ربانی سے انکی آصف زرداری کی بے پناہ کرپشن کے باوجود حمایت پرمعترض ہیں۔ اچھی شہرت رکھنے والے سیاستدانوں سے ن لیگ بھی یکسر خالی نہیں۔لیکن ایسے لوگ اقتدار میں حصہ دار رہنے کے لالچ میں اپنے قائد کی کرپشن پر اپنا منہ اور آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کا اقتدار ، جنرل پرویز مشرف کی طرح طاقتور نہیں۔ وہ سندھ سے بینکوں سے بیاسی کروڑ معاف کروانے والی فہمیدہ مرزا اوربلوچستان سے بچوں کو دودھ کیلئے دی جانیوالی رقم خرد برد کرنیوالی زبیدہ جلال تک کووزیر بنانے پر مجبور نکلے ۔ اتنے کمزور اقتدار میں بھی عمران خان نے کرپشن کے مسئلے پر کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ کرپشن کیخلاف جنگ میں یہ کہتے ہوئے کہ ’’احتساب سے پیچھے نہیں ہٹوں گا‘‘اپنے مورچے پر پوری طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’یہ لوگ حکمرانی پاکستان میں کرتے ہیں ، جائیدادیں پاکستان سے باہر بناتے ہیں ، علاج بیرون ملک سے کرواتے ہیں۔انکے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں۔ انکے کاروبار بیرون ملک میں ہیں‘‘۔ بہر حال ملک کا پیسہ لوٹنے والوں کو کٹہرے میں لانا عمران خان کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے دن بدلنے والے ہیںاور اچھے دن آگے آنے والے ہیں۔