پاکستان کی قسمت بدل چکی تھی، پچیس لاکھ بیرل یومیہ تیل کی پیداوار شروع ہوچکی تھی ،تیل کی قیمت اب پانی سے بھی سستی ہوچکی تھی، تیل کی دولت سے مالا مال پاکستان میں اب غیرملکی دیوانہ وار سرمایہ کاری کے لئے آنا شروع ہوچکے تھے ، لیکن حکومت نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں پر کفیل کی پابندی عائد کردی تھی یعنی جو بھی سرمایہ کار پاکستان میں آئے گا اسے ایک پاکستانی پارٹنر بنانا لازمی قرار دے دیا گیا تھا، جس سے گھر بیٹھے پاکستانی لکھ پتی بنتے جارہے تھے، تیل کی دولت اورغیر ملکی سرمایہ کاری کے سبب پراپرٹی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں ، ویسے بھی پاکستان کی ضرورت تو صرف دس لاکھ بیرل تیل یومیہ کی تھی جس کے بعد پندرہ لاکھ بیرل تیل کی برامد بھی شروع ہوچکی تھی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز بڑھتے جارہے تھے پاکستان اب پرانا پاکستان نہیں رہا تھا اب نیا پاکستان بن چکا تھا اسلامی دنیا کا امیر ترین ملک جو نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال تھا بلکہ صنعتی ترقی میں بھی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھابیرون ملک مقیم پاکستانی تیز رفتاری سے پاکستان واپس روانہ ہورہے تھے تاکہ ملک کی معاشی خوشحالی میں اپنا حصہ بھی تلاش کرسکیں ،لیکن میں اب تک جاپان میں ہی تھا اور اس وقت ٹوکیو میں سفارتخانہ پاکستان کے باہر موجود تھا جہاں جاپانی کاروباری شخصیات اور سیاحت کے شوقین جاپانی شہریوں کی ایک طویل قطار موجود تھی جو پاکستان جانے کے لئے بے چین نظر آرہے تھے میں قابل رشک اور قابل فخر نظروں سے پاکستانی سفارتخانے اور جاپانی شہریوں کو دیکھ رہا تھا جو جلد از جلد پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا چاہ رہے تھے، ابھی چند برس قبل کی ہی بات تھی جب اس طرح کا رش پاکستان میں جاپانی سفارتخانے اور قونصل خانے کے باہر نظر آیا کرتا تھا جن میں سے اکثریت کی ویزے کی درخواست رد ہی کر دی جاتی تھی اور چند ہی خوش نصیب ہوا کرتے تھے جو جاپان کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتے، لیکن پاکستانی سفارتخانے میں جاپانی شہریوں کو ویزہ فراہم کرنے کا تناسب سو فیصد ہی تھا یعنی جو بھی آتا با مراد ہی واپس جاتا، میں بھی اس وقت ایک جاپانی کاروباری وفد کے ساتھ سفارتخانے میں موجود تھا جو پاکستان کے ویزے کے حصول کے لئے یہاں موجود تھے اور اگلے ہفتے اس کاروباری وفد کو چارٹرڈ جہاز سے پاکستان روانہ ہونا تھا ایک طویل اور صبر آزما پروسس کے بعد تمام جاپانی دوستوں کو اسی دن ویزے مل چکے تھے ، پھر وہ دن بھی آگیا جب میں جاپانی وفد کے ہمراہ پاکستان کے لئے روانہ ہو رہا تھا، جہاز میں ایک جاپانی ماہر جاپانی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتارہا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری انتہائی محفوظ اور منافع بخش ہے، یہاں کی حکومت سرمایہ کار دوست ہے، یہاں کے عوام امن پسند اور محنتی ہیں یہاں کا تعلیم کا تناسب سو فیصد ہے ،پاکستان سرمایہ کاری کے لحاض سے ایشیاء کا سب سے منافع بخش ملک ہے ،پاکستان تیل کی پیداوار کے مقابلے میں دنیا کے چھٹے نمبر پر کویت سے بھی آگے ہے جبکہ سونا، چاندی اور کاپر کی پیداوار میں بھی بہت آگے نکل چکا ہے، پاکستان کا سی پیک منصوبہ مکمل ہوچکا ہے اور اب گوادر سے شروع ہونے والی سڑک پاکستان کے مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے چین ا ور وسطی ایشیاء کے ممالک تک جاتی ہے یعنی آپ کی پیداوار کراچی اور گوادر پورٹ کے ذریعے نہ صرف پوری دنیا تک پہنچے گی بلکہ سڑک کے راستے چین اور وسطی ایشیا کے ممالک تک بھی باآسانی جاسکے گی، جاپانی مجھ سے ایک مقامی پارٹنر تلاش کرنے کی درخواست کررہے تھے جو کم سے کم ماہانہ اخراجات میں ان کی کمپنی کے قیام میں تعاون کرسکے لیکن میرے لئےیہ ایک کافی مشکل کام تھا لیکن میں پھر بھی جاپانی سرمایہ کاروں سے تعاون کرنے کے وعدے کرتا جارہا تھا، ایک طویل سفر کے بعد جہاز میں اعلان کیا گیا کہ اب ہم پاکستان کی حدود میں داخل ہوگئے ہیں اور کراچی کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرنے والے ہیں، اس اعلان کے بعد تمام جاپانی کاروباری حضرات نے کھڑکیوں کے ساتھ والی نشستیں سنبھال لیں شاید وہ کراچی کا فضائی نظارہ کرنا چاہتے تھے اور پھر کچھ ہی دیر بعد کراچی کی بلند و بالا عمارتوں نے دیکھنے والے جاپانیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا جدید ترین اور خوبصورت انداز سے بنی بلند و بالا عمارتیں، خوبصورت سڑکیں، لاکھوں کی تعداد میں تن آور درختوں نے پورے شہر کو سرسبز و شادات بنادیا تھا جبکہ صاف ستھری اور زگ زیگ انداز میں بنی سڑکیں اور پلوں نے کراچی کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے تھے میں کراچی کی خوبصورتی دیکھتے ہوئے اچانک کچھ رنجیدہ ہوگیا تھا میں سوچ رہا تھا کہ اتنا خوبصورت ،ترقی یافتہ ملک چھوڑ کر میں پردیس میں کیا کررہا ہوں مجھے فوراََ اپنے ملک میں مستقل طور پر واپس آجانا چاہئے، اس سے پہلے میں واپسی کا فیصلہ کرتا میرے کندھوں پر کسی نے ہاتھ رکھے لیکن میں ابھی تک اپنے فیصلے پر قائم تھا لیکن پھر مجھے ان نازک ہاتھوں سے جھنجھوڑا گیا تو میں واپس اپنے حواس میں آچکا تھا ایک خوبصورت ایئر ہوسٹس مجھے جگا رہی تھی کہ جہاز لینڈ کرنے جارہا ہے لہذا سیٹ بیلٹ باندھ لیں، میں شاید حکمرانوں کے سجائے سبز باغوں اورسنہرے خوابوں میں کھو چکا تھا لیکن پرانے پاکستان کے پرانے ایئرپورٹ پر لینڈنگ مجھے واپس پرانے پاکستان میں لے آئی جہاں کچھ بھی نہ بدلا تھا جو کچھ بھی بدلا تھا وہ عوام کو دکھائے جانے والے سبز باغ او ر سہانے خوابوں میں ہی بدلا تھا جس کے بعد بالآخر سب کی آنکھیں کھل ہی جاتی ہیں۔ از قدم سراب۔۔۔ ازقلم : محمد عرفان صدیقی جاپان بشکریہ جنگ