فیضان عارف میرا کلاس فیلو نہیں تھا بلکہ میں اس کا کلاس فیلو تھا‘ یہ یونیورسٹی کے دور میں بھی مشہور تھا‘ بہاولپور میں رہتا تھا‘ اخبار میں کام کرتا تھا اور شعر کہتا تھا‘ یہ تمام کلاس فیلوز سے زیادہ پڑھا لکھا‘ مہذب اور سمجھ دار تھا‘ میں اس جیسا بننا چاہتا تھا لیکن اس دور میں بن سکا اور نہ آج بنا ‘ میں تعلیم کے بعد صحافت میں آگیااور یہ لندن شفٹ ہو گیا۔
یہ جنگ لندن سے منسلک ہوا‘ پھر یہ ایک اردو چینل پر مارننگ شو کرنے لگا لیکن پھر اس نے صحافت چھوڑ دی اور کاروبار شروع کر دیا‘ یہ قناعت کی دولت سے مالا مال ہے چنانچہ یہ آدھا دن کام کرتا ہے‘ اتنے پیسے کماتا ہے جس سے یہ اور اس کا خاندان اچھی زندگی گزار سکے‘ یہ باقی وقت لکھنے پڑھنے میں صرف کر دیتا ہے‘ یہ گھومنے پھرنے کا شوقین بھی ہے‘ یہ اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ سیاحت پر خرچ کرتا ہے‘ میں زندگی کے مختلف ادوار میں جب بھی لندن گیا میں فیضان عارف سے ضرور ملا لیکن کوشش کے باوجودہم دونوں میں بے تکلفی نہ ہو سکی۔
اجنبیت اور کھچاؤ کی ایک دیوار ہر دور میں ہمارے درمیان کھڑی رہی‘ ایسا کیوں تھا؟ شاید یہ حسد کا عنصر تھا‘ فیضان تہذیب‘ عقل‘ مطالعے اور تجربے میں مجھ سے آگے تھا شاید میں اس وجہ سے اس سے جیلس تھا لیکن اس سفر میں اجنبیت کا یہ دیوار گر گئی‘ ہم بے تکلف ہو گئے‘ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے وجہ تلاش کی تو پتہ چلا ہم بعض لوگوں کے ساتھ کتنی ہی کوشش کر لیں ہم ایک خاص میچورٹی سے پہلے ان کے ساتھ بے تکلف نہیں ہو سکتے‘ ہمارے ہر تعلق کو ایک خاص میچورٹی درکار ہوتی ہے‘ فیضان عارف کیونکہ دماغی لحاظ سے مجھ سے بیس پچیس سال میچور تھا جب کہ میں جب تک اس کے پست ترین معیار کے برابر نہیں آیا، ہم اس وقت تک اجنبیت کی دیوار کے آر پار کھڑے رہے بہرحال قصہ مختصر ہم 25 سال کی کوشش کے بعد ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔
میں انورنیس میں تھا‘ میں نے فیضان عارف کو فون کیا اور یہ دو دن کی مہلت لے کر ایڈنبرا آگیا‘ ہم نے گاڑی لی اور ہم دونوں پہاڑوں میں نکل گئے‘ کیلنڈر اسٹرلنگ کے قریب ایک خاموش پہاڑی قصبہ ہے‘ لوگ سکون کے چند دن گزارنے کے لیے یہاں آتے ہیں‘ ہم کیلنڈر نکل گئے‘ قصبے کے دائیں بائیں گھنے جنگل ہیں اور جنگلوں میں ندیاں‘ دریا اور جھیلیں ہیں‘ مجھے اسکاٹ لینڈ کی نصف درجن روایات نے متاثر کیا‘ ان میں سے دو روایات زیادہ خوبصورت ہیں مثلاً اسکاٹ لینڈ کے دیہات میں اکثر جگہوں پر فارم شاپس ہیں‘ آپ فارموں کے درمیان سے گزرتے جاتے ہیں اور آپ کو اچانک فارم شاپ کا سائن بورڈ نظر آ جاتا ہے۔
آپ اپنی گاڑی اس طرف موڑ لیتے ہیں‘ آپ کو بھیڑوں‘ گائیوں‘ پھلوں اور سبزیوں کے ایکڑوں تک پھیلے فارم کے عین درمیان لکڑی کا ایک بڑا سا ہٹ دکھائی دیتا ہے‘ آپ اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ اندر گروسری شاپ‘ کافی شاپ‘ باربی کیو ریستوران‘ ہاتھ سے بنی مصنوعات کا اسٹور اور گوشت کی دکان دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں‘ مارکیٹ میں موجود تمام مصنوعات اس فارم کی پیداوار ہوتی ہیں‘ لکڑی کے ہٹس میں بنی یہ فارم شاپس لائف ٹائم تجربہ ہیں‘ ہم اس تجربے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کیلنڈر پہنچے‘ دوسری روایت گھروں میں بنے ہوٹل ہیں۔
آپ کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں اور اسکاٹش خاندان کے ساتھ ان کے گھر یا فارم ہاؤس میں رات گزاریں‘ یہ تجربہ بھی شاندار ہے‘ ہم یہ تجربہ بھی کرنا چاہتے تھے چنانچہ ہم مختلف دیہات میں مختلف گھروں میں رکتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے‘ وہ ایک عجیب دن تھا‘ ہم اس دن جس گھر جس ہوٹل میں گئے ہمیں جگہ نہ ملی لیکن لوگوں کے رویوں نے ہمارا دل موہ لیا‘ اسکاٹش بہت فرینڈلی اور مہمان نواز ہیں‘ یہ اجنبیوں سے بڑی محبت سے ملتے ہیں‘ یہ ہم سے بھی پیار سے ملتے رہے‘ ہمیں رہنے کے لیے جگہ نہیں ملی لیکن ہم نے اس تلاش میں پوری وادی گھوم کر دیکھ لی۔
ہم دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جنگل میں ایک ایسے منگل تک جا پہنچے جس نے ہمارے قدم روک لیے‘ جگہ کا نام کوئین الزبتھ فاریسٹ پارک تھا‘ کسی کمپنی نے جنگل میں لکڑی کے دو درجن ہٹس بنا دیے تھے‘ یہ فائیو اسٹار ہٹس تھے‘ ہر ہٹ دوسرے ہٹ سے ذرا سا ہٹ کر تھا اور وہ پورا فیملی یونٹ تھا‘ اپنا کچن‘ اپنا لاؤنج‘ اپنا صحن اور اپنے بیڈرومز‘ ہٹس کے درمیان میں دفتر‘ کافی شاپ اور ریستوران تھا‘ ہٹس کی پشت پر جنگل تھا جب کہ سامنے وسیع جھیل تھی‘ پہاڑی جھرنے شور کرتے ہوئے نیچے آتے تھے‘ ذرا سا رکتے تھے اور پھر جھک کر جھیل پر سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔
جھیل کسمسا کر نئے پانیوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی تھی‘ دنیا میں اگر جنت کے ٹکڑے ہوتے ہیں تو وہ جگہ یقینا ان میں سے ایک تھی‘ ہم نے جھیل کے گرد واک شروع کر دی‘ لوگ جھیل کے کنارے مچھلیاں بھی پکڑ رہے تھے‘ جاگنگ بھی کر رہے تھے‘ سائیکل بھی چلا رہے تھے‘ تیراکی بھی کر رہے تھے اور باربی کیو بھی کر رہے تھے‘ آبی پرندے دور سے اڈاری بھر کر آتے تھے‘ جھیل کی سطح کو چھوتے تھے اور پُھر کر کے اڑ جاتے تھے‘ وہ قدرت کی ایک وسیع پینٹنگ تھی اور ہم دونوں اس پینٹنگ کا حصہ بن کر کھڑے تھے۔
جھیل کے ساتھ ساتھ سڑک بہہ رہی تھی اور سڑک کے دونوں کناروں پر جنگلی پھول سر اٹھا کر قدرت کی صناعی کی داد دے رہے تھے‘ پھر وہاں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی‘ بارش نے منظر کو مزید نکھار دیا‘ ہمیں یوں محسوس ہوا یہ منظر ہماری حیات کا رزق تھا‘ ہماری آنکھیں جب تک اس جھیل‘ اس کے پانیوں اور ان پانیوں کے آئینے پر جھکے درختوں کو نہ چکھ لیتیں یہ بند نہیں ہو سکتی تھیں‘ لوگ اور منظر بھی رزق ہوتے ہیں‘ یہ رزق بھی ہمارے نصیب کے بہی کھاتے میں درج ہوتا ہے۔
ہم جب تک اپنے حصے کے مناظر نہ دیکھ لیں اور ہم جب تک اپنے مقدر کے لوگوں سے نہ مل لیں‘ ہم اس وقت تک قبر کی مٹی تک نہیں پہنچتے‘ ہم جہاں بھی چلے جائیں‘ ہم جدھر بھی نکل جائیں ہم گھوم گھام کر اپنے مقدر کی جگہوں اور اپنے مقدر کے لوگوں تک ضرور پہنچتے ہیں اور وہ جھیل اور اس کے پہاڑ بھی ہمارے مقدرکا حصہ تھے چنانچہ ہم اچانک وہاں پہنچے اور اس کا سارا سحر سمیٹ لیا۔
ہم آگے چل پڑے‘ جگہ تلاش کرتے رہے لیکن قدرت سارے دروازے بند کر کے ہمیں ہمارے حصے کی ایک اور طلسماتی جگہ کی طرف دھکیل رہی تھی‘ ہمیں کیلنڈر کے ٹور ازم آفس نے بتایا پہاڑوں کے درمیان میکڈونلڈ فاریسٹ ہل کے نام سے ایک فائیو اسٹار ریزارٹ ہے‘ اس ریزارٹ میں ایک کمرہ موجود ہے‘ آپ وہاں چلے جائیں‘ آپ اگر لکی ہوئے تو آپ کو وہ کمرہ مل جائے گا۔
ہم جنت گم گشتہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ وہ جگہ آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر تھی‘ ہم جوں جوں چلتے رہے توں توں منظر بدلتا رہا‘ پہلے وادیاں آئیں‘ پھر وادیاں پہاڑوں میں تبدیل ہوئیں اور پھر پہاڑوں نے سرک کر جھیل کو راستہ دے دیا‘ جھیل کا پانی سڑک کے لیول پر تھا‘ سڑک پانی کے رخساروں کو چھو کر آگے بڑھ رہی تھی‘ سڑک تنگ بھی تھی اور گیلی بھی‘ اس کے گیلے پن میں ایک مہک تھی‘ ایک نیم گرم مہک‘ یہ جھیل اور اس کے گرد فطرت کا غلاف یہ دونوں اس جھیل سے ہزار درجے بہتر تھے جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔
ہم ہوٹل پہنچ کر رک گئے‘ ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بے اختیار کہا ’’ہمیں اگر یہاں جگہ نہ ملی تو ہم سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں ہو گا‘‘ ریسپشن پر ایک مہربان خاتون کھڑی تھی‘ کمرہ تھا لیکن اس کمرے میں سنگل بیڈ تھا اور ہم دونوں ایک بیڈ پر گزارہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ خاتون نے قہقہہ لگایا اور کمرے میں صوفہ کم بیڈ لگوا دیا اور یوں ہم خوش نصیب ثابت ہو گئے‘ ہم نے سامان رکھا اور باہر ٹیرس پر آ گئے‘ قدرت کی اس پینٹنگ پر شام اتر رہی تھی‘ پیانو بج رہا تھا اور لوگ ٹیرس پر بیٹھ کر گلاسوں میں شام گھول رہے تھے۔
ہمارے سامنے جھیل کے سرمئی پانی تھے‘ دائیں اور بائیں پہاڑ تھے‘ پہاڑوں سے درخت‘ بیلیں اور پھول نیچے جھک کر جھیل میں اپنا عکس تلاش کر رہے تھے‘ شام کے پرندے جھیل کو آخری سلام پیش کر رہے تھے اور ہم اس منظر میں خاموش بیٹھے تھے اور پھر اچانک آسمان کے سرے کھل گئے‘ شام افق سے ٹوٹی‘ ڈولی اور جھیل کی سرمئی چادر پر آ گری‘ پانی کو آگ لگ گئی‘ زمین برف کی ڈلی کی طرح گھلنے لگی‘ خواہشوں کے بے لگام گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے۔
پوری فضا میں خوابوں کے گڑ کی خوشبو پھیل گئی‘ اگر منظر کنوارے ہو سکتے ہیں تو پھر وہ منظر سو فیصد کنوارہ تھا‘ اس کے اندر سے کنواری جوانی کی خوشبو امڈ رہی تھی‘ ہماری روح پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی‘ ہواؤں کے ٹائی راڈ کھل چکے تھے اور خیال کے بادبان پھٹ گئے تھے‘ ہم اس لمحے بند مٹھی کی ریت بن گئے‘ اندر ہی اندر سرکتی اور بکھرتی ریت‘ ہم ابھی حیرت سے اس بکھرتی ریت کے ذرے گن رہے تھے کہ اچانک وقت نے کروٹ لی اور شام رخصت ہو گئی‘ رات کی چادر چاروں اور بکھر گئی‘ آسمان سیاہ ہو گیا لیکن پھر اچانک بدلی سرکی اور چاند نکل آیا۔
ہم نے کچی نیند کے مسافروں کی طرح آنکھیں ملیں اور ہمارا دل پسلیوں سے سر پٹخنے لگا‘ جھیل دودھیا ہو چکی تھی‘ وہ اپنی ہی خواہشوں کے دودھ میں دھل کر دودھ بن چکی تھی اور پھر وہاں سرسراتی ہوئی ہوا تھی‘ آبشاروں کا شور تھا‘ آسمان کا سکوت تھا‘ جھیل کا کروٹیں بدلتا پانی تھا‘ چاند تھا‘ ستارے تھے اور جنگلوں کی مہک تھی اور ہم تھے اور پھر کوئی آبی پرندہ جھیل سے اڑا اور پوری فضا میں اس کی چیخ گونج اٹھی‘ پینٹنگ میں زندگی دوڑ گئی۔