لاہور (ویب ڈیسک) پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ملک کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی یعنی آئی ایس آئی کا نیا چیف مقرر کر دیا گیا ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل نہیں بلکہ
نامور صحافی فرحت جاوید بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے آفیسرز ٹریننگ سکول سے فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ وہ لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت میں سعودی عرب میں بھی تعینات رہ چکے ہیں جبکہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے سیاچن میں ڈویژن کمانڈ کی اور انڈیا کی جانب سے مبینہ سرجیکل سٹرائیک کے دعوے سے چند روز قبل ہی وہ جی ایچ کیو میں تعینات ہوئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر خفیہ ادارے کے سبکدوش ہونے والے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی جگہ لیں گے جنھیں 2016 میں خفیہ ایجنسی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ تقریباً پونے دو سال اس منصب پر فائز رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر رواں برس جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران فوج کے ہی ایک اور انٹیلیجنس ادارے ’ایم آئی‘ کے سربراہ تھے اور اس دوران فوج پر بعض حلقوں کی جانب سے انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ وہ فوج میں ایک سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اہم عہدوں، خاص طور پر ڈی جی ایم آئی رہنے کی بدولت ان کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ
آئی ایس آئی میں بھی فوج کی پہلے سے جاری پالیسیوں اور اقدامات کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔ اگرچہ آئی ایس آئی کو فوج کے اہم ترین اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے تاہم اب تک صرف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی وہ واحد فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے آرمی چیف بننے سے پہلے آئی ایس آئی کی سربراہی بھی کی ہوئی تھی۔ کیا آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی سے ادارے کی پالیسی پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کا کہنا تھا کہ فوج کی پالیسی سربراہان کی تبدیلی سے نہیں بدل سکتی۔ انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں بہت کم ادارے ہیں جو ایک ادارہ جاتی پالیسی کو فالو کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ نیا آرمی چیف، نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی یا نیا آئی ایس آئی سربراہ آئے اور وہ کوئی نیا راستہ دریافت کر کے اس پر چلنا شروع کر دے۔ ’یہاں مربوط قومی حکمت عملی کے تحت راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور فوج اور آئی ایس آئی اس کا حصہ ہوتی ہے۔ اس لیے پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ تو نیا سربراہ لا سکتا ہے اور نہ ہی وہ لاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ملک کے اندر سکیورٹی کے معاملات میں بھی آئی ایس آئی کا اہم کردار ہے
جبکہ پاکستان میں اس کے کردار میں گذشتہ دو دہائیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور پالیسی سازی میں دیگر اداروں کی طرح فوج کا یہ حصہ بھی اپنا اِن پُٹ(رائے) دیتا ہے۔ ‘یہ ایجنسی پالیسی ڈرائیور( پالیسی مرتب نہیں کرتی) نہیں بلکہ پالیسی فیسیلیٹیٹ کرتی ہے۔ اس کی اِن پٹ پر حکومت پالیسی بناتی ہے’۔ آئی ایس آئی کی جانب سے سیاست میں مداخلت کے الزامات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ سیاست میں یہ مداخلت دنیا بھر میں ہوتی ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاست میں فوج کے کردار میں کمی آرہی ہے، جس کی وجہ جمہوریت کی مضبوطی ہے’۔ فوج میں عام طور پر یہ تاثر ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز یعنی ڈی جی ایم او اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس یعنی ڈی جی ایم آئی کو فوجی سربراہ کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کے قریبی افسران میں سے ایک کو اس عہدے پر تعینات کیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری وزیراعظم کی صوابدید ہے اور یہ ادارہ بھی قانون کے تحت وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔ اس طرح ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم اور فوجی سربراہ دونوں کو ہی جوابدہ ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے دورِ حکومت میں دو بار فوجی سربراہ کا انتخاب بھی کریں گے۔ موجودہ آرمی چیف 2019 میں ریٹائر ہوں گے جبکہ ان کی جگہ آنے والے فوجی سربراہ 2022 میں ریٹائر ہوں گے۔