تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
معراج النبی ۖ کو ہمارے ہاں مذہبی نوعیت کا واقعہ تہوار سمجھا جاتا ہے اور اِسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے اسی وجہ سے مقدس مذہبی تہوار کی مناسبت سے ایک ادھ جلسہ منعقد کر کے شب دیدار کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں ۔نوافل پڑھ لیے شیرینی بانٹ دی ریڈیو TVچینل پر مقررتقریریں کر کے واہ واہ کا ماحول بنایا اور فارغ ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ اصل میں یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے۔ تسخیرِ کائنات کے سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ سفر معراج کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ مسجر الحرام سے مسجد اقصٰی تک یہ زمینی سفر۔ دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصٰی سے سدرة المنتہی تک ہے یہ کرہ ارض سے کہکشاوں کے اس پار واقع نورانی دنیا کا سفر ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدرة المنتہی سے آگے قاب قوسین اور اُس سے بھی آگے تک ہے۔
یہ لازوال سفر محبت اور عظمت کا سفر ہے یہ سب دیدار مُحب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ تر راز میں رکھا گیا سورة النجم میں صرف اتنا فرمایا وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کرلیں ۔ بے شک اِس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کا خوبصورت مکھڑا دیکھا اور اپنے محبوب کی میٹھی میٹھی زبان سے باتیں سنیں۔ یہی وہ مقام تھا جہاں فقط رسول کریم ۖ ہی تھے جو اپنے رب تعالی کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تعالی کے ارشادات اور پیار بھری باتیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سفر محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا ۔ اِس رات سر تاج الانبیاء ۖ کے ہر روحانی لطیفے کو قرب ِ الہٰی نصیب ہو ااور وہ دیدار خدا کی لازوال لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا یہاں پر جب تمام مراحل طے پاگئے تو ساقی کو ثر اِس حال میں زمین پر لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مالک ارض و سما کے قرب اور دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں۔
معراج النبی ۖ کا وقوع پذیر ہونا انسانی تاریخ کا ایک ایسا زرین اور درخشندہ باب ہے جس کا ایک ایک حرف عظمت و رفعت کی ہزار ہا داستانو ں کا امین اور عروج آدم خاکی کا ان گنت پہلوئوں کا مظہر ہے نقوش ِ کفِ پائے محمد ۖ سے لوح افلاک پر شوکت انسانی کی جو دستاویز مرتب ہوئی وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہی نہیں بلکہ ایسا مینارہ نور بھی ہے کہ جو تسخیرِ کائنات کے ہر مرحلے پر آنے والی نسل انسانی کے راستوں کو منور کرتا رہے گا اور آسمانوں کی حدود سے نکل کر اولادِ آدم کو مشاہدہ فطرت کی ترغیب دیتا رہے گا سفر معراج اصل میں سفر ارتقا ہے یہ آقائے دو جہاں کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر عقل انسانی آج بھی انگشت بد نداں ہے انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک لمبا سفر طے ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے قسم ہے روشن ستارے (وجود محمدی ۖ)کی جب وہ (شب معراج عرشِ بریں پر عروج فرما کر زمین کی طرف ) اُترا تمھارے آقا نہ (کبھی) گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے ۔ ان کافرمانا فقط وحی الہٰی ہی ہوتا ہے جو (انکی طرف ) کی جاتی ہے ۔ انہیں سکھایا سخت قوتوں والے بہت زبردست (اللہ) نے۔
پھر اس (اللہ) نے استوی فرمایا ۔ اِس حال میں کہ وہ (محمد ۖ) سب سے اونچے کنارے پر تھے پھر قریب ہوا (اللہ محمد ۖسے ) پھر زیادہ قریب ہوا ۔ تو (محمد ۖ اپنے رب سے ) دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریب ۔ تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائی۔ سورة انجم ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے )پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب ) بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے با برکت بنا دیا تاکہ ہم اُس (بندہ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔ سورة بنی اسرائیل ۔ حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہے۔
یہاں تک کہ آپ سِدرة المنتہی پر آگئے رب العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اِس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ صحیح بخاری ۔ رب کعبہ نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب ۖ کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالی اور اُس کے محبوب کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا گویا کہ رحمتِ مجسم ۖ پر پروردگار کے جلوئوں کی برسات خوب ہوئی بارگاہ خدا میں نبیوں کے سردار تاجدار کائنات ۖسرتاپا صفات ربانی میں اسطرح رنگے گئے کہ آپ ۖ کی ذات اللہ تعالی کی پیکراتم بن گئی ۔ سرور کائنات ۖ مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقامِ نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے ۔ حقیقت محمدی ۖ ان دونوں مقامات کی انتہا سے بھی بالا تر ہے آپ ۖکا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ ۖ کو مدعو کیا گیا۔
سفر معراج کی شان دیکھئے رب ذولجلال جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے قوانین وقت کے پیمانے پلٹ کر رکھ دے ۔ معراج کے حوالے سے عبدالقدوس گنگوہی نے کیاخوب کہا ہے کہ ۔ حضور ۖ فلک افلاک پر پہنچے مگر واپس آگئے اگر میں وہاں پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا ۔ یہ بات ایک صوفی تو کر سکتا ہے کہ صوفی کا نقطہ کمال یہی ہے اگر وہ اس تک پہنچ گیا تو گویا اِس کی تمام عبادات ریاضتوں کا ثمر حاصل ہو گیا لیکن پیغمبر کا منصب مخلوق خدا کی ہدایت اور راہنمائی ہے کہ وہ عرش پر جا کر بھی اپنے منصب کی تکمیل کے لیے واپس فرش پر لوٹ آتا ہے۔
شبِ معراج کا یہ معجزہ ہے کہ انسان بس ایک مشتِ خاک جسے ہوا کا ایک جھونکا اڑا اور بکھیر سکتا ہے ۔ فرشتوں نے بھی حضرت انسان کی عظمت کو محض تسبیح و تقدس کے حوالے سے دیکھا اور بول اٹھا کہ ہم اِس سے زیادہ خدا کی پاکی اور حمد بیان کر نے والے ہیں لیکن معراج کی رات نبی کریم ۖ ان انتہائی رفعتوں اور منزلوں سے ہو آئے جس کے پہلے زینے پر جبرائیل امین کے پر جلنے لگے وہ منظر کتنا خوب ہو گا جب محبوب خدا ۖ خراماں خراماں ان رفعتوں کی طرف بڑھے جہاں فرشتوں کے پر جلتے تھے اُس وقت ملائکہ کتنی حسرت سے دیکھتے ہوں گے اور رشک کرتے ہوں گے۔مرحوم کوثر نیازی نے کیا خوب کہا ہے۔
ان کی عظمت کی جھلک دیکھ کر معراج کی شب
کب سے جبرائیل کی خواہش ہے بشر ہو جائے
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956