یہ دو مختلف خطوں اور دو مختلف لوگوں کی کہانیاں ہیں‘ ہم لوگ ان کہانیوں سے سبق بھی سیکھ سکتے ہیں اور اپنی زندگیاں بھی آسان بنا سکتے ہیں۔
مجھے طویل عرصہ قبل آسٹریا میں کسی پاکستانی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا‘ وہ صاحب تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے‘ عام سے کم تعلیم یافتہ انسان تھے‘ دو شادیاں کر رکھی تھیں‘ ایک بیوی پاکستانی تھی اور دوسری مراکش سے تعلق رکھتی تھی‘ہمارا مراکش کی خواتین کے بارے میں تصور ہے یہ خوبصورت‘ سلم اور اسمارٹ ہوتی ہیں جب کہ ہماری زیادہ تر عورتیں عام نین نقش کی حامل ہوتی ہیں مگر وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی‘ ان کی مراکشی بیگم عام نین نقش کی ناٹے قد کی خاتون تھی جب کہ پاکستانی بیوی گوری چٹی کشمیرن تھی‘ یہ دونوں بیگمات اوپر نیچے دو الگ الگ فلیٹس میں رہتی تھیں۔
یورپ میں بیک وقت دو شادیاں رکھنا غیر قانونی ہیں چنانچہ مسلمان ایک بیوی کو سرکاری کاغذات میں ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور دوسری بیوی صرف نکاح تک محدود رہتی ہے‘ یہ لوگ عام طور پر ڈکلیئربیوی کو سرکاری اور دوسری کو نکاحی بیوی کہتے ہیں‘ ان صاحب نے بھی اسی قسم کا ارینجمنٹ کر رکھا تھا‘ پاکستانی بیگم سرکاری تھی جب کہ مراکشی بیوی نکاحی تھی یہ کہانی یہاں تک عام تھی‘ یورپ میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں اور ان کی داستان تقریباً ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے‘ اصل کہانی اس سے آگے آئے گی۔
پاکستانی بیگم اپنے ہاتھ سے اپنی سوتن کو وضو کراتی تھی اور اس کیلیے جائے نماز بچھاتی تھی‘ وہ صاحب بھی دوسری بیگم پر بار بار نثار ہوتے تھے‘ یہ میرے لیے حیران کن منظر تھا‘ میں نے ایک شام اس صاحب کے سامنے اس حیرت کا اظہار کیا‘ اس نے قہقہہ لگایا ‘ دونوں بیگمات کو بلایا اور پھر اپنی کہانی سنانا شروع کر دی‘ اس نے بتایا پاکستانی بیگم اس کی کزن ہے‘ یہ مزاج کی تیز اور غصے کی سخت تھی‘ یہ شادی کے بعد بیگم کو آسٹریا لے آئے‘ دو بچے ہو گئے لیکن ان کی زندگی میں بے آرامی اور بے سکونی تھی‘ یہ سارا دن کام کرتے تھے‘ شام کے وقت گھر آتے تھے تو بیگم کی قِل قِل شروع ہو جاتی تھی۔
بیوی کی فرمائشیں اور مطالبات بھی غیر منطقی ہوتے تھے چنانچہ ان کی زندگی دوزخ بن کر رہ گئی ‘ یہ روز آتے جاتے راستے میں ایک کافی شاپ پر رکتے تھے‘ ان کی دوسری بیگم اس کافی شاپ میں کام کرتی تھی‘ وہ روز خاتون کو دیکھتے تھے‘ خاتون کی آنکھوں میں حیاء اور لہجے میں شائستگی تھی‘ یہ ہر وقت کام کرتی رہتی تھی‘ کافی شاپ میں اگر کوئی گاہک نہیں ہوتا تھا تو وہ کرسیاں اور میزیں صاف کرنا شروع کر دیتی تھی یا کاؤنٹر اور کچن کا سینک رگڑنے لگتی تھی اور یہ اکثر اوقات سیڑھی لگا کر کافی شاپ کا بورڈ صاف کرنے لگتی تھی‘ میں نے کبھی اس عورت کو کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ ’’میں اس کی ان تھک محنت سے بہت متاثر ہوا۔
میں یہ دیکھ کر بھی حیران رہ گیا اس خاتون نے تین سال قبل یہ نوکری شروع کی اور یہ آخر تک اس کافی شاپ کے ساتھ چپکی رہی‘ اس دوران درجنوں ملازمین آئے اور چلے گئے‘ کافی شاپ کے دو مالکان بھی بدل گئے لیکن خاتون نے نوکری تبدیل نہ کی‘ یہ معمولی معاوضے پر پانچ لوگوں کا کام اکیلی کرتی رہی‘‘ صاحب کو آہستہ آہستہ خاتون میں دلچسپی پیدا ہو گئی‘ خاتون بھی ان میں دلچسپی لینے لگی‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا‘ خاتون نے شادی سے قبل دو عجیب و غریب شرطیں رکھ دیں۔
اس کی پہلی شرط تھی‘ میں تمہاری پہلی بیگم اور بچوں کے ساتھ رہوں گی اور دوسری شرط تھی میں ملازمت نہیں کروں گی‘ میں گھر سنبھالوں گی‘ وہ صاحب ڈرتے ڈرتے دونوں شرطیں مان گئے‘ نکاح ہوا اور وہ صاحب دوسری بیوی کو لے کر گھر آگئے‘ پہلی بیوی نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن یہ صرف ایک دن کا واویلا تھا‘ خاتوں نے اگلے دن پہلی بیگم کو پچاس فیصد اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ دونوں ہفتے میں بہنیں بن گئیں‘ وقت گزرتا چلا گیا‘ مراکشی بیگم سلیقہ مند تھی‘ محنتی تھی ‘محبت سے لباب بھری ہوئی تھی‘ ان تھک تھی‘ وسیع دل کی مالک تھی اور یہ بے لوث تھی چنانچہ اس نے خدمت‘ محبت اور سادگی سے پورے گھرانے کا دل موہ لیا‘ یہ پورے خاندان کا مرکز بن گئی۔
وہ صاحب‘ ان کے بچے اور ان کی دونوں بیگمات بہت خوش تھے‘ صاحب خانہ نے دوسری شادی کے بعد بے انتہا ترقی بھی کی‘ یوں وہ ہر لحاظ سے شاندار ‘ مسرور اور دلچسپ خاندان تھا‘ میں نے کہانی کے آخر میں مراکشی بیگم سے پوچھا ’’آپ نے کیا جادو کیا‘ یہ انہونی ہوئی کیسے؟‘‘ خاتون نے بتایا‘ مراکش میں بزرگ خواتین اپنی پوتیوں اور نواسیوں کو دعا دیتی ہیں‘ جا اللہ تعالیٰ تمہیں فرشتہ دے‘ اس کا مطلب ہوتا ہے تمہاری شادی کسی فرشتہ صفت انسان سے ہو‘ میری دادی بھی مجھے یہ دعا دیا کرتی تھی۔
میں نے ایک دن اپنی دادی سے پوچھا‘ اماں مجھے فرشتہ ملے گا کیسے؟ تو میری دادی نے جواب دیا‘ تمہاری شادی جس سے بھی ہو تم اس کے گھر کو جنت بنا دینا وہ شخص شیطان بھی ہوا تو وہ فرشتہ بن جائے گا‘ میری دادی نے بتایا‘ فرشتے جنت اور شیطان دوزخ میں رہتے ہیں اور دنیا کی جو عورتیں اپنے گھروں کو دوزخ بنا دیتی ہیں ان کے گھروں میں فرشتے نہیں آتے ‘ میں نے دادی کی بات پلے باندھ لی‘ میں نے اس گھر کو جنت بنا دیا چنانچہ اس گھر کے سب لوگ فرشتہ بن گئے‘ میری سوتن بھی فرشتہ ہو گئی۔
آپ اب دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے‘ میں لاہور کے ایک صاحب کو جانتا ہوں‘ یہ بدصورتی میں مجھ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں‘ کالا رنگ‘ منہ پر چیچک کے داغ‘ چھوٹا ساقد اور کمر پر کب‘ یہ چاروں طرف سے بدصورت ہیں‘ یہ امیر بھی نہیں ہیں‘ بمشکل گزارہ ہوتا ہے‘ تعلیم بھی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی بیگم بے انتہا خوبصورت‘ نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں‘ یہ اپنے خاوند سے بے انتہا محبت کرتی ہیں‘ یہ اس کا بچوں کی طرح خیال بھی رکھتی ہیں۔
میں اس عجیب و غریب ’’کمبی نیشن‘‘ پر حیران تھا‘ میں نے ایک دن اس صاحب سے بھی نسخہ کیمیا پوچھ لیا‘ یہ مجھے سیدھا اپنی بیگم کے پاس لے گیا اور میرا سوال اس کے سامنے رکھ دیا‘ بیگم نے قہقہہ لگایا اور بولی عورت کو مرد سے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں‘ کیئر‘ محبت اور عزت اور یہ شخص ان تینوں میں کمال ہے‘ مجھے انھوں نے جتنی کیئر‘ محبت اور عزت دی وہ مجھے میرے بھائیوں‘ میری ماں اور میرے والد سے بھی نہیں ملی چنانچہ میں ہر وقت ان پر نثار ہوتی رہتی ہوں۔
میں نے حیرت سے اس صاحب کو دیکھا اور ان سے پوچھا ’’آپ نے یہ نسخہ کہاں سے سیکھا‘‘ یہ مسکرائے اور بولے ’’دنیا کا ہر مرد حور کو اپنی بیوی دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے حوریں شیطانوں کو نہیں ملتیں انسانوں کو ملتی ہیں‘ آپ خود کو انسان بنا لیں آپ کو دنیا میں بھی حوریں مل جائیں گی اور آپ آسمانوں پر بھی حوروں کے درمیان رہیں گے‘‘ یہ خاموش ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اور انسان کون ہوتے ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی مقدس ترین مخلوق ہیں لیکن تعالیٰ نے اس مقدس ترین مخلوق سے انسان کو سجدہ کرایا‘ کیوں؟ کیونکہ انسان کے پاس انسانیت کا جوہر تھا اور یہ وہ جوہر ہے جس سے فرشتے محروم ہیں‘ ہم انسان اگر زندگی میں ایک بار انسان بن جائیں تو ہمیں حوریں بھی مل جائیں اور ہمیں فرشتے بھی دوبارہ سجدے کریں ‘ میں نے اپنے وجود میں چھپی انسانیت کو جگا لیا تھا‘ میں نے انسان بننے کا عمل شروع کر دیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میرا گھر اس حور کی روشنی سے بھر دیا‘ میں چیلنج کرتا ہوں دنیا کا کوئی شخص اپنے اندر موجود انسانیت جگا کر دیکھے اس کی بیوی خواہ کتنی ہی بوڑھی‘ ان پڑھ یا بدصورت ہو گی وہ حور بن جائے گی‘ وہ اس کا گھر روشنی سے بھر دے گی‘‘۔