لاہور (ویب ڈیسک) یہ ایک اور دن تھا نِمی نِمی دھوپ والا‘ ٹھنڈک بھری ہوائوں والا، جب میں ایک مرتبہ پھر لاہور آوارگی پر مائل ہوا اور میرے ہمراہ دائیں بائیں دو مُنکر نکیر تھے۔ صدیق شہزاد اور فرید احمد جو میرے نائب آورہ گرد تھے اور ہم اس سویر نکلے تھے نامور کالم نگار مستنصر حسین تارڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ان آثار کی تلاش میں جو اس شہر میں جگہ جگہ بکھرے۔ کہیں ظاہر ہوتے اور کہیں نیم پوشیدگی میں تاریخ کو اپنی پرانی اینٹوں پرنقش کئے ہماری آنکھوں کے منتظر تھے۔ وہ سراسر گمنام تو نہ تھے۔ کچھ تو بہت نامور تھے لیکن بیشتر کے بارے میں ہم نے صرف سن رکھا تھا۔ پڑھ رکھا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ تھا۔ آج انہیں دیکھنے نکلے تھے اور وہ آسانی سے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ لاہور کے نواح میں گھنی آبادیوں کی بھیڑ میں روپوش تھے اور ان میں ایک کوئی درس میاں وڈّا نام کا تھا۔ شنید تھی کہ اکبر اعظم کے دور سے لے کر عہد موجود تک وہاں درس قرآن مسلسل جاری ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اس کی قدیم عمارت ابھی تک موجود ہے اور باغبانپورہ کے علاقہ میں کہیں واقع ہے۔ فرید کی سفید مینڈکی کار آبادی کی الجھنوں میں پھدکتی جاتی تھی۔ اور پھر ہمیں ایک قدیم پیپل کے سامنے ایک سبز رنگ کا بورڈ نظر آیا۔ ’’خانقاہ شریف اعلیٰ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل سہروردی المعروف میاں وڈّا صاحب‘‘خانقاہ کے داخلے پر ماند پڑتی ہوئی سنگ مر مر کی ایک سِل پر تاریخ وفات میاں وڈّا صاحب بہ زبان فارسی نقش ہے۔ ’’شنو تاریخ آن دریا ئے معنے کہ عمرش گشتہ در عشق خدا صرف دل و جان کرد قربان الٰہی کہ اسماعیل ثانی بود بے حرف سالانہ عرس 25شوال المکرم کو ہوتا ہے کوئی کام خلاف شرع نہیں ہوتا‘‘ویسے’’تحقیقات چشتی‘‘ میں جو قطعہ تاریخ وفات درج وہ سنگ مر مر کی سِل پر تحریر کردہ عبارت سے ذرا مختلف ہے۔ خانقاہ کے اندر داخل ہونے پر دائیں جانب ایک مسجد ہے اور ایک تنگ دروازے میں جھک کر آپ اس قدیم درس گاہ کی عمارت میں داخل ہو جاتے ہیںاور آپ ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جیسے ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ آپ عہد حاضر کے موسموں سے کٹ کر ماضی کی فضائوں میں سانس لینے لگے ہیں۔ برآمد میں چند طالب علم قرآن پاک حفظ کر رہے ہیں۔ خانقاہ کے برابر میں ایک قدیمی قبرستان کی فنا ٹھنڈک آپ کو محسوس ہونے لگتی ہے۔ جانے وہاں کون کون دفن ہے۔ میاں وڈّا کے مرید رشتے دار اور ان کی قبر کے رکھوالے۔ ایک نامعلوم لگتی قبر پر ایک نوتعمیر کردہ سیمنٹ کی محراب ہے اور اس میں ایک پرانا کتب آویزاں ہے جو اپنی قدامت کی دل آویزی سے آپ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ دراصل کتبہ نہیں ‘ زرد رنگ کی ٹائلز پر نقش ایک عبارت بہ زبان فارسی بمشکل پڑھی جاتی ہے۔تاریخ وفات۔ شیخ مخدوم و حضرت دوجہان عالم عامل و ولی زمان محبت و عرفان1120۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درمیان میں ایک کھلے احاطے میں چند کچی قبریں ہیں جن میں سے ایک میاں وڈّا کی ہے۔ احاطے کے برابر میں محراب در محراب میں مسجد اور درس گاہ کے آثار ہیں وہ اپنی قدامت اور سادہ طرز تعمیر سے آپ کے دل پر نقش ہوتی ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ میاں وڈّا کی یہ مسجد ابھی تک تقریباً اسی حالت میں موجود تھی جب وہ اس کی محرابوں تلے بیٹھ کر قرآن پاک کا درس دیا کرتے تھے۔ یہ عالی شان مکان باغ شالامار سے ایک میل کے فاصلے پر جانب جنوب واقع ہے۔ یہ عالی شان مدرسہ اکبری عہد میں شیخ محمد اسماعیل المشہور میاں وڈّا نے بنوایا اور اس میں قرآن شریف کی تدریس جاری کی۔(تاریخ لاہور)ویسے شیخ محمد اسماعیل دیگر بزرگان دین سے اس لئے مختلف ہیں کہ وہ کہیں باہر سے تشریف نہیں لائے تھے۔ پوٹھو ہار کے علاقے میں ایک گائوں تڑگراں میں کھوکھر قوم کے ایک معزز شخص فتح اللہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ۔ کھلے احاطے میں ایک آہنی گیٹ دھکیل کر جب اندر قدم رکھا تو وہاں کھلے آسمان تلے شیخ اسماعیل ‘ شیخ جان محمد‘ شیخ نور محمد اور حافظ صالح محمد کی قبریں گلاب کے پھولوں میں روپوش ہیں اور کچی ہیں کہ شیخ اسماعیل نے وصیت کی تھی کہ میری قبر کچی رکھی جائے اور اس پر کوئی تعمیر نہ کی جائے۔ ان میں سے صرف شیخ اسماعیل کی کچی قبر کو گھاس کے چوکور ٹکڑوں سے ڈھانپا گیا تھا۔ جیسے ان دنوں نرسریوں میں فی فٹ کے حساب سے گھاس کے تختے لان میں بونے کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔ ویسی گھاس ۔ ظاہر ہے یہ گھاس کچی مٹی میں بوئی نہیں گئی تھی۔ صرف اس کی سطح پر رکھ کر اسے ڈھانپا گیا تھا۔ جب سوکھ جاتی ہو گی تو اسے تبدیل کر دیا جاتا ہو گا۔لیکن آخر کیوں؟۔یہ میرے لئے اس خانقاہ کا سب سے پراسرار بھید تھا۔ میرے مرشد ناول نگار لیوٹالسٹائی کو اس کی وصیت کے مطابق خاندان کے آبائی جنگل میں کھلے آسمان تلے دفن کیا گیا اور قبر کو کچا رکھا گیا۔ ٹالسٹائی کی خواہش تھی کہ وہ بعد ازمرگ بھی موسموں کے تغیر کو محسوس کرتا رہے۔ موسم سرما میں اس کی قبر برف سے ڈھک جائے۔ بہار میں اس کی مٹی میں سے خودرو پھول نمودار ہوں اور بارشوں کی نمی اسے سیراب کرے۔ میں اس کی قبر پر کھلے چند جنگلی پھول تبرک کے طور پر توڑ لایا اور انہیں پاکستان پہنچ کر اپنے ’’وار اینڈ پیس‘‘ کے نسخے کے اوراق میں محفوظ کر لیا۔ شیخ اسماعیل کی ایک کرامت یہ تھی کہ وہ کند ذہن شاگردوںکو بھی آسانی سے قرآن پاک حفظ کرا دیتے تھے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ میرے بعد ہماری قبر سے بھی یہ فیض جاری رہے گا۔ نور احمد چشتی نے’’ تحقیقات چشتی‘‘ میں لکھا ہے کہ اب تک کسی کا ذہن کند ہوتا ہے وہ شیخ اسماعیل کی قبر پر اگی گھاس جا کر کھاتا ہے اور اس کو قرآن شریف جلدی آ جاتا ہے۔ چنانچہ یہ روائت آج بھی جاری ہے۔ اگرچہ ان کی قبر کی مٹی میں سے جنگلی گھاس نہیں پھوٹتی کہ اس کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے لیکن اسے گھاس کے ٹکڑوں سے ڈھانپا جاتا ہے اور آج بھی وہ لوگ جنہیں قرآن پاک حفظ کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔اس گھاس کے پتے اس یقین کے ساتھ تبرک کے طور پر کھاتے ہیں کہ ان کا ذہن روشن ہو جائے گا۔ شیخ اسماعیل کی کچی قبر۔ پہلو میں واقع پرانی مسجد اور قدیمی قبرستان سے باہر کا راستہ اختیار کیجیے تو وہاں خانوادہ شیخ اسماعیل کے ایک بزرگ حافظ محمد دین کا مرقد ہے جس کے درو دیوار شیشہ گری کے نفیس کام سے مزین ہیں۔ ایک مقامی شخص ہمیں اس بزرگ کے مقبرے تک لے گیا جو شیخ اسماعیل کی آمد سے قبل یہاں مقیم تھے اور ایک روائت کے مطابق انہوں نے اپنا درس شیخ اسماعیل کے سپرد کیا اور خود گوشہ نشین ہو گئے ان کے مقبرے کے گنبد کا رنگ سبز ہے اور داخلے پر ایک تختی پر یہ عبارت درج ہے۔ ’’سید محمود شاہ صاحب المعروف گنبد والے‘