جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ گولیاں بچوں کی ٹانگوں میں لگیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔فائرنگ کے بعد پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی) اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جائے وقوع پر پہچ شواہد اکٹھے کیے اور تحقیقات کا آغاز کردیا۔فائرنگ میں زخمی ہونے والے بچوں میں 10 سالہ نسیمہ، 12 سالہ گل محمد، 9 سالہ سلمان اور 10 سالہ مسعود اظہر شامل ہیں۔واضح رہے کہ زمرہآرمی پبلک اسکول پشاور پردہشت گردوں کے حملے کو تین سال مکمل ہوگئے جہاں شہداء کے والدین تاحال غم کی کیفیت میں ہیں۔ جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے۔16دسمبر 2014 کو آج ہی کے دن پشاورمیں آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں نے حملہ کرکے معصوم بچوں کونشانہ بنایا اور100 سے زیادہ طلباء کوبے دردی سے شہید کردیا۔ شہدا کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے، دہشت گردوں نے اسکول پرحملہ کرکے علم کی شمع بجھانا چاہی لیکن قوم کے حوصلے پست نہ ہوئے۔اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد قوم نے نئے عزم کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی جبکہ حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے لئے قومی ایکشن پلان شروع کی
• ا۔ دہشت گردوں نے مستقبل کے معماروں کونشانہ بنا کرملک اورسیکیورٹی اداروں کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی لیکن ملک بھرمیں جاری تعلیمی سرگرمیاں ملک دشمنوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ قوم کےعزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، شہداکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے میں دسویں جماعت کا طالب علم اسفند خان بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا، اسفند ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اس لئے والدین کی انسیت بھی اس سے زیادہ تھی۔ والدین نے جگر کے ٹکڑے کا سامان اب بھی اسی طرح سنبھال رکھا ہے۔دہشت گردوں نے علم کی شمع روشن کرنے والی اسکول ٹیچر فرحت عباس کو بھی شہید کردیا۔ فرحت عباس گولیوں کی آواز سن کراسکول میں موجود اپنے بچوں کی طرف دوڑیں ۔اورانہیں سیڑھیوں میں گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا ۔آج بھی شہید فرحت عباس کی یاد ان کے خاندان کو غمگین کردیتی ہے۔شہید حسن زیب کے والد نے ایک کمرے میں بیٹے کے استعمال کی تمام چیزیں رکھ دی ہیں۔ بچپن کی تصاویر بھی حسن زیب کے کمرے کی زینت بن گئی ہیں،جہاں اس کے استعمال کے پرفیوم کےساتھ یونیفارم اور دیگر سامان بھی پڑا ہے لیکن گھر میں اب صرف حسن زیب کی یادیں ہی ہیں۔آڈیٹوریم ہال میں دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور بچوں کی جان بچانے کے دوران قوم کی بہادر بیٹی بینش نے شہادت پائی، ہمت اورحوصلے کی نئی داستان رقم کرنے پربینش شہید کو تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔سالہ اسامہ طاہراعوان بھی ان شہداء میں شامل ہے، اسامہ کے والدین کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں۔ اسامہ کےاستعمال کی اشیاء آج بھی کمرے کی زینت ہیں، میڈل سے لے کر کتابیں اورکیمرہ اس کی یاد دلاتا ہے۔آرمی پبلک اسکول میں خصوصی مرکزی تقریب کے انعقاد کے علاوہ پبلک لائبریری کے پہلو میں تعمیر کردہ یادگار شہدا کا بھی افتتاح کیاجائے گا تاہم شہدائے آرمی پبلک سکول کی برسی کے سلسلے میں خیبر روڈ پر شہدا کی تصاویر سجادی گئی ہیں جب کہ آرمی پبلک سکول اورآرکائیوز لائبریری تقاریب میں اہم شخصیات کی آمد بھی متوقع ہے۔واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ پشاور کے اندر قتل عام کرتے ہوئے اسکول کے طلبا اور پرنسپل طاہرہ قاضی شہید سمیت 150 افراد کو شہید کر دیا تھا۔