جناب عالی، ساری کائنات میں اپنے سب سے بڑے عقیدت مند کا ایک اور خط قبول فرمائیے، میں کبھی جنابِ والا کو اتنی جلدی زحمت نہ دیتا مگر کیا کروں کہ حالات و واقعات، اور جناب کی ’’حرکات‘‘ جنہیں حرکات بد سے اگرتعبیر کیا جائے تو قطعاً بے جا نہ ہوگا۔ مگر میں ایسی بے ادبی کرنے کے بارے میں سوچ بھی کہاں سکتا ہوں۔ جناب کے عقل و دانش سے بھرپور بیانات کی رفتار ہی اتنی تیز ہے کہ مجھ جیسا عقیدت مند رہ نہیں سکا، مجھے برملا اس بات کا احساس ہے کہ آپ کا وقت بہت ہی قیمتی ہے کیونکہ جو چیز کم ہو وہ قیمتی ہوا کرتی ہے اور وقت آپ کے پاس بہت کم ہے، میرا مطلب ہے کہ یہی کوئی تین ساڑھے تین سال ہی ہم کم نصیب لوگ جناب کی شفقت سے بہرہ مند ہو پائیں گے پھر آئندہ کا کیا پتا کہ آپ انتخابات میں منتخب ہوسکیں یا پھر امریکی قوم کی قوت فیصلہ درست کام کرجائے۔
جناب عالی، آپ نے کیا زبردست، بہادرانہ، جواں مردوں والا بیان دیا ہے (گو کہ اب آپ عمر کے اعتبار سے جواں مردی سے خاصے دور نکل آئے ہیں) ’’میں ہرگز مسلمانوں سے تارکین وطن والے بیان پر معافی نہیں مانگوں گا!‘‘ کیا بات ہے عالی جناب کی، آپ کی بڑھک سن کر مجھے اپنے ایک ہر دلعزیز مرحوم فنکار جناب سلطان راہی یاد آگئے، وہی جن کی فلم ’’مولا جٹ‘‘ کی نقل آپ لوگوں نے ریمبو سیریز میں کرنے کی بھونڈی سی کوشش کی تھی۔ خیر، یہ تو یوں ہی درمیان میں بات نکل آئی۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ جناب والا، آپ نے بالکل درست بیان دیا ہے، کوئی ضرورت نہیں ہے معافی وافی کی، اور وہ بھی مسلمانوں سے؟ توبہ توبہ! قصور تو ان کا خود کا ہے ناں کہ ساری دنیا سے اپنے اپنے ملک چھوڑ کر امریکا خوامخواہ ہی آگئے اور اپنی قابلیت سے امریکا کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ بھئی اگر یہ قابلیتیں اور مہارتیں وہ اپنے ملک میں صرف کرتے تو ان کے پسماندہ ممالک بھی ترقی کرتے ناں! دیکھا حضرت، میں بھی آپ کا سچا عقیدت مند ہوں اس لئے آپ کے بیان میں چھپی دانائی اور پسماندہ مسلمان ملکوں کےلیے آپ کی اس دیرینہ شقفت کو کیسے بھانپ گیا، جس کا مظاہرہ ہم برسوں سے افغانستان، عراق، شام اور پاکستان میں دیکھ ہی رہے ہیں۔ سلام ہے آپ کی باتوں میں چھپی دانائی پر۔
سرکار، بڑی خوشی اور دلی مسرت سے عرض ہے کہ جانے یہ چھوٹی سی خبر جناب کو معلوم بھی ہے کہ نہیں کہ ہمارے غریب ملک کے دو غریب موٹرسائیکل سواروں پر کرنل جوزف صاحب کے بعد ایک بار پھر آپ کے سفارتخانے کے مزید دو محترم اہلکاروں نے نشے کی حالت میں دوبارہ شفقت فرمائی اور انہیں غلط موٹر سائیکل چلانے پر تنبیہاً ہلکی سی ٹکر دے ماری۔ ارے جناب! آپ تو جان بھی لے لیں تو کوئی بات نہیں۔ یہ تو بس تھوڑا بہت زخمی ہی ہوئے، مگر اس دفعہ سنا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے خاصی بے مروتی کا مظاہرہ کیا، اور ان معزز سفارتی اہلکاروں کو ساڑھے آٹھ گھنٹے کے طویل دورانیے تک تھانے میں بٹھالیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔ جناب عالی! میں بہت معذرت خواہ ہوں، اصل میں یہ سب ہمارا میڈیا کرتا ہے، خوامخواہ ہی پر کا بگلا بنا دیتا ہے۔ میں دلی معذرت طلب کرتا ہوں، اور ان نیک دل سفارتی اہلکاروں کی اس سرزمین سے بحفاظت واپسی کےلیے دعاگو ہوں۔
اور جناب والا! یہ روس کے صدر کو کیا ہوگیا ہے؟ خوامخواہ ہی آپ کی اور آپ کے عظیم الشان ملک کی بار بار توہین کرتے رہتے ہیں، کبھی عالمی دہشت گرد کہہ دیتے ہیں تو کبھی کچھ اور، جناب میرا ظرف آپ جیسا بلند کہاں، آپ کا ظرف تو بے غیرتی کی حدود سے بھی ماورا ہے۔ میں تو جناب کا بس ایک حقیر سا عقیدت مند ہوں۔ میں کہے دے رہا ہوں کہ مجھ سے یہ گستاخی اور جناب کی یوں کھلی توہین بلکل برداشت نہیں ہوتی، میری مؤدبانہ التجا اور مشورہ ہے کہ آئندہ کسی بھی قریبی عالمی کانفرنس میں اگر وہ آپ سے مصافحے کےلیے ہاتھ بڑھائیں تو آپ بالکل ایسے ہی نظرانداز کرکے برابر والے کسی عالمی رہنما سے ہاتھ ملا لیجئے گا جیسے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے جناب کے ساتھ کیا تھا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کی یہ بے رخی اور بے اعتنائی روسی صدر کا دل توڑ دے گی اور واپس جاکر وہ ضرور نہ صرف غمگین نغمے سنیں گے بلکہ آپ کو ایک درد بھرا خط بھی لکھیں گے اور یقیناً اوٹ پٹانگ بیانات دینے سے باز آجائیں گے۔
اور اگر باز نہ آئیں تو آپ بس اپنے اس خادم یعنی مجھے اشارہ کردیجئے گا، بائیں آنکھ سے، وہ جودائیں سے ذرا چھوٹی ہے، اور مبلغ ایک لاکھ ڈالر بھجوا دیجیے گا۔ بس، پھر میں جانوں اور میرا کام۔ جناب عالی، میرے پاس بابا کالے کرتوتی گورداسپور والے مرحوم کا عطا کردہ ایک زبردست منتر ہے، تین دن میں دشمن کا کلیجہ کٹ کر منہ سے باہر آجاتا ہے۔ عمل خطرناک ہے بسا اوقات پلٹ بھی جاتا ہے، بابا جی بھی اسی کے پلٹنے سے مرے تھے۔ پر جناب کی محبت میں بلامعاوضہ کر گزروں گا، ایک لاکھ ڈالر تو منتر کے لوازمات کےلیے منگوا رہا ہوں۔
جنابِ عالی، میں نے آپ سے گزشتہ خط میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کردیا گیا ہے۔ محترم کرنل جوزف صاحب کو بغیر کسی ٹوٹ پھوٹ کے بحفاظت امریکا پارسل کردیا ہے۔ آپ خوامخواہ ہی پریشان ہو رہے تھے، ہم ہیں ناں، ارے ہم تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے اس واپسی کی، پر لگتا ہے کہ یہ کہیں ایمبسی سے ہی لیک ہوکر سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر آگیا۔
خیر، میں جلد ہی پتا کرکے آپ کو بذریعہ اسی طرح کے خط کے آگاہ کردوں گا کہ کون یہ مخبریاں کررہا ہے آپ کے سفارت خانے سے، پر آپ یہ راز کسی کو بتائیے گا نہیں، بس خاموشی سے کارروائی کیجئے گا۔ اور پریشان بالکل نہ ہوا کریں، آپ کی جبینِ ناز پر شکن بھی آئے ہمیں کب گوارا ہے۔ اور رہے وہ بے چارے کچلے جانے والے پاکستانی تو جناب، وہ ہمارے ایک باغیانہ سے شاعر تھے فیض صاحب، لینن پرائز بھی ملا تھا انہیں، ان کا ایک حسب حال شعر ہے:
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
باقی ہماری ڈاکٹر عافیہ کا خیال رکھیے گا، بس انہیں ہم جلد ہی بلوانے والے ہیں۔
اچھا بس اب آخری بات۔ جناب عالی، میں نے کچھ مخبر مکھیاں پالی ہوئی ہیں جو ساری دنیا کی خبریں لاکر میرے کانوں میں بز بز کرتی رہتی ہیں۔ ایک امریکا کے سفید گھر یعنی وائٹ ہاؤس سے بھی آتی جاتی رہتی ہے اور جناب کی اندرن و بیرونِ خانہ سرگرمیوں سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ اس نے بتایا کہ آپ نے جو نئے سیکریٹری خارجہ محترم جناب مائیک چمپو… اوہ سوری… مائیک پومپیو مقرر فرمائے ہیں، انہوں نے آپ کو پہلا نادر مشورہ یہی دیا کہ آپ ایران سے جوہری معاہدہ ختم کردیں، جو جناب عالی نے منظور کرلیا ہے اور اس کا اعلان بھی فرما چکے ہیں۔ دنیا والے آپ کی بصیرت افروزی کیا جانیں جو آپ کے خلاف صف آراء ہونے لگے ہیں۔ کہنا یہ تھا سر جی کہ میں اس چمپو… اوہ سوری، پھر غلطی ہوگئی… پومپیو کے مشورے کی ایک ہزار فیصد تائید کرتا ہوں۔ کسی مسلم ملک کو جوہری توانائی استعمال کرنے کاحق نہیں ہونا چاہیے، خاص طور پر ایران کو، جو جناب کے جنت نظیر ملک کے بارے میں برملا ’’مرگ بر امریکا‘‘ کا نعرہ مستانہ لگاتا ہی رہتا ہے۔ وہ تو جناب عالی ہم ہی تھے جنہوں نے 80 کی دہائی میں آپ کو افغان وار میں دھوکے سے الجھا کر جھٹ پٹ ایٹمی صلاحیت یوں حاصل کی کہ آپ کے بڑے سب جاننے کے باوجود افغان جنگ کی وجہ سے دانت پیسنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکے۔
بہرحال، ایران سے آنے والی میری مخبر مکھی نے یہ بزبز کی ہے کہ ان لوگوں نے اس متوقع اعلان کے پیش نظر چند ایٹمی ہتھیار، یہی کوئی پچاس ساٹھ، پہلے ہی تیار کرکے روس کے پاس رکھوا دیئے ہیں۔ دیکھیے ناں! یہ کتنی بری بات ہے۔ چلیے خیر، اب اجازت چاہتا ہوں کہ میرا وقت آپ جتنا تو نہیں مگر کچھ نہ کچھ قیمتی تو ہے اور مجھے منتر کی تیاری بھی کرنی ہے اگر آپ نے پیسے بھیج دیئے تو۔
دیگر کارِ لائقہ سے جلد یاد فرمائیے۔ گھر والوں خصوصاً ملکہ عالیہ کو میری طرف سے وہی پہلے والا خصوصی پیار اور دعا۔ وقت زیادہ لینے کی معافی چاہتا ہوں، اور امید ہے کہ آپ مجھ حقیر فقیر بندہ پرتقصیر کی مندرجہ بالا خیر خواہانہ گزارشات اور ہفوات پر ضرور دل سے عمل کریں گے، کیونکہ دماغ تو جناب کا… زیادہ حد ادب۔