اسلام آباد : صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ‘خواب ہے یا حقیقت؟پیر کے روز ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وزیراعظم، وفاقی وزراءکے صوابدیدی فنڈز اور ارکان قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز ختم کردیئے جائیں گے۔اس فیصلے کو اس طرح دکھایا گیا جیسے پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ اقدام سب سے پہلے کیا ہے ،
تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔بہت کم لوگوں نے یہ چیک کرنے کی زحمت اٹھائی کہ کیا یہ فنڈز پہلے موجود تھے؟صرف 8کروڑ روپے وزیر اعظم کے لیے مختص کیے جاتے ہیں ، جس کا زیادہ تر استعمال وہ ضرورت مندوں پر خرچ کرکے کرتے ہیں ، جیسے کہ مفت علاج وغیرہ یہاں تک کے موجودہ حکومتی عہدیدار بھی اقرار کرتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔جیو نیوز کے مطابق دس لاکھ روپے کا خصوصی فنڈ جو کہ ہر کابینہ رکن کے لیے مختص ہوتا تھا ، وہ پچھلی حکومت پہلے ہی ختم کرچکی تھی۔مختلف وزارتوں کو خفیہ فنڈز کے اجراءکا عمل ن لیگ حکومت روک چکی تھی۔صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ خفیہ فنڈز ملتے ہیں۔گزشتہ حکومت نے ارکان قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا ، تاہم مختلف ناموں سے یہ عمل جاری رہا۔لہٰذا فرق کیا ہے؟ارکان قومی اسمبلی کےترقیاتی فنڈزکا اجرا روکناپی ٹی آئی حکومت کا اصل امتحان ہوگا۔ان فنڈز کو روکنے کا فیصلہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا تھا، جسے صوابدیدی فنڈز کا نام دیا تھا، حقیقت میں ترقیاتی کام وفاقی ارکان اسمبلی نہیں بلکہ لوکل گورنمنٹ کے ذمے ہوتا ہے، خاص طور پر جب 18ویں ترمیم کے بعد ،
مالیات کا بڑا حصہ صوبوں کو تفویض کردیا گیا ہے۔ان فنڈز کو ختم کرنے کا وعدہ پی ٹی آئی نے اپنے 2013کے منشورمیں کیا تھا۔اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی نے پانچ برس قبل جب خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی تھی ، اس وقت اس عمل کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔کیا اس نے اپنا وعدہ پورا کیا؟اس کا جواب نفی میں ہے۔زیادہ امیدیں وابستہ کرنے سے قبل ماضی میں اعلان کردہ اقدامات کے نتائج کا جائزہ لینا ضروری ہے۔اگر 2013میں ن لیگ حکومت کے ابتدائی دنوں کو یاد کیا جائے تو اس وقت امید کی ایک لہر آئی تھی ، پی ٹی آئی حکومت کی طرح ہی کفایت شعاری کی باتیں کی گئی تھیں۔ن لیگ حکومت کے پہلے بجٹ میں وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات میں 45فیصد کمی کا اعلان کیا گیا تھااور اسے 72کروڑ50لاکھ روپے سے کم کرکے 39 کروڑ 60 لاکھ روپے کردیا گیا تھا۔تاہم، اس میں دوسرے سال سے ہی اضافہ شروع کردیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ رواں برس ن لیگ نے جو بجٹ پیش کیا، اس میں وزیر اعظم ہاﺅس کے لیے 98کروڑ60لاکھ روپے مختص کیے گئے، جو کہ 2013کے ابتدائی بجٹ جس میں کمی لائی گئی تھی اس سے بھی زیادہ تھے۔
اسی طرح کفایت شعاری کے تحت غیر ترقیاتی اخراجات میں 30فیصد تک کمی لائی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دفتری امور متاثر ہوئے کیوں کہ اسٹاف نے پیپرز، سیاہی اور ٹیلی فونک سہولیات کی شکایات شروع کردیں، جس کے باعث حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔اسی طرح ارکان قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے فنڈز کا غلط استعمال کیاانہوںنے اپنے آبائی علاقے گجر خان پر 47ارب روپے خرچ کیے ، جب کہ 5ارب روپے دیگر بااثر ارکان اسمبلی کے لیے مختص کیے۔جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو اس نے پرویز اشرف کے خلاف اقدام کی ہدایت کی اور وزیراعظم اور وزرااعلیٰ کےترقیاتی منصوبوں کے لیے صوابدیدی فنڈز کو غیر آئینی عمل قرار دیا۔5دسمبر،2013کو سنائے جانے والے فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ان مقاصد کے لیے اس طرح کے فنڈز مختص کرنے کے لیے طریقہ کار متعین کرے۔ن لیگ نے جب حکومت بنائی تھی تو اس نے ابتدائی طور پر ارکان قومی اسمبلی کی جانب سےاپنے حلقوں میں بتائے گئے ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔دریں اثنا، وزیراعظم کے اعلان کردہ ترقیاتی امور جیسا کہ ،
سڑکوں کی تعمیراور سوئی گیس کی فراہمی وغیرہ پلاننگ ڈویڑن کے ذریعے انجام پائیں گی۔نوا زشریف حکومت کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے راولپنڈی۔اسلام آباد میٹرو پروجیکٹ کے لیے فنڈز منظور کیے اور کہا گیا کہ یہ پرویز اشرف کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے، حالاں کہ اس پر صوابدیدی فنڈ کے بجائے پلاننگ ڈویڑن کے ذریعے عمل کیا گیا تھا۔اس تنقید کے ردعمل کے طور پر نواز شریف نے ملک بھر میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتالوں کے قیام کا اعلان کیا، تاہم یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا کیوں کہ پھر یہ سوالات سامنے آئے کہ ان اسپتالوں کا نظم ونسق صوبائی حکومت چلائے گی یا وفاقی حکومت اور ا س کے امور کی انجام دہی کے لیے فنڈ کون دے گا۔البتہ اصل امتحان ارکان قومی اسمبلی کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے تھا، کیوں کہ حکومت پر پی ٹی آئی کے دھرنے اور نیوز لیکس کی وجہ سے تنقید کی جارہی تھی اور ارکان اسمبلی بھی اسے بلیک میل کررہے تھے۔ایسے میں یا تو ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے عدالتی حکم پر عمل کرنا تھا یا پھر ارکان اسمبلی کو خوش کیا جاسکتا تھا، خاص طور پر جب کہ 2018کے عام انتخابات سر پر تھے۔