ابھی کچھ دیر پہلے انٹرنیٹ پر پاکستان کے ایک مشہور صحافی کا ایک انٹرویو سننے کااتفاق ہوا۔ اس انٹرویو میں وہ صحافی اس بات کا برملا اظہار کررہےتھے”کہ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء آیا وہ ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں اور ان کے ایجنڈے کی وجہ سے آیا ہے۔ اگر کسی غیر ملکی حکومت کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت یا جمہوری سیاسی قیادت ان کے ایجنڈے کے مطابق کام نہیں کر رہی تو وہ مارشل لا کا راستہ اختیار کرتے ہیں”۔
میں یہاں پر جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ شاید اس انٹرویو کے تناظر میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری فوج جو ہماری سرحدوں کی محافظ ہے اس پر مغربی دنیا کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ وہ جب چاہیں ہماری منتخب کردہ جمہوری حکومتوں کو گھر بھیج کر مارشل لاء نافذ کر سکتے ہیں؟۔ اگر اس بات کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیں حکومتوں کے ساتھ فوج کے احتساب کی بہت ضرورت ہے اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہمیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ ہم اپنی فوج کو بدنام تو نہیں کر رہے؟۔ ہمارے اس طرح کے انٹرویوز اور کالمز کہیں لوگوں میں غیر یقینی کی کیفیت تو پیدا نہیں کر رہے؟ کیا کہیں ایسا تو نہیں میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر اپنی سیاسی غلطی کو دہرا کر فوج کو دعوت دے رہے ہوں، حالاں کہ فوج کے ترجمان نے اس بات کو کئی بار دہرایا ہے” فوج جمہوریت کے ساتھ ہے اور وہ مارشل لاء کے حق میں نہیں”۔ کہیں میاں صاحب کا ایجنڈا ایسا تو نہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین مغرب کی حمایت حاصل کرکے فوج کو مارشل لاء کی طرف راغب کردیں۔
ابھی کچھ دنوں پہلے پاکستان کے وزیرِ داخلہ اور وزیراعظم نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ پاکستان میں کوئی مارشل لاء اور نہ ہی ٹیکنو کریٹ حکومت بدلنے کا کوئی امکان موجود ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری یہ جمہوریت جس کو زندہ رکھنے کے لیے کوششیں کی جارہیں ہیں،کیا جمہوریت اپنی صحیح اور اصل شکل میں اس ملک میں بحال رہے گی یا اس ملک کو ایک بار پھر پانچویں مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا فوج کے ترجمان کا بار بار یہ بیان دینا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں، اس کے باوجود مارشل لاء کی باتیں کرنا جمہوری دور میں جمہوریت کے خلاف نہیں؟ یہ پاکستانی عوام گزشتہ ستر سالوں سے کبھی فوج کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی جمہوریت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دیتی ہے۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی حکومت اور آنے والے سینٹ الیکشن کو بچانے اور 2018 کے عام انتخابات میں اسں بات پر زور دے کر لوگوں سے دوبارہ ووٹ مانگیں کہ عدلیہ نے ان کے ساتھ زیادتی کی حالا نکہ وہ اس ملک کا نقشہ اور تقدیر بدل دیتے اگر ان کو اقتدار سے الگ نہ کیا جاتا۔ مارشل لاء کی باتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر کی توڑ پھوڑ کہیں اس بات کا پیش خیمہ تو نہیں کہ ہم بلواسطہ یا بلاواسطہ فوج کو دعوت دے رہے ہوں۔
میری اس تحریر کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں مارشل لاء کے حق میں یا جمہوریت کے خلاف، میرا مقصد صرف ایک ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ صرف اس ملک کی بقاء اور سالمیت کے لیے کام کیا جائے اور ملک دشمنوں خاص طور پر مغرب کواس بات کا واضح پیغام دیا جائے کی فوج بیرکوں میں اچھی لگتی ہے ایوانوں میں نہیں۔