اسلام آباد (ویب ڈیسک ) گذشتہ کچھ عرصے میں ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔خاص طور پر مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت پر بہت تنقید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہماری حکومت میں تو ڈالر کی قیمت 100 روپے یا اس سے کچھ اوپر تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔لیکن ن لیگ کی حکومت ڈالر کی قیمت کو 102 روپے تک رکھنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ اسی متعلق اب ایک اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔معروف معاشی ماہر عابد سلہری نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ ن لیگ کی حکومت نےڈالر کو 102 روپے پر رکھنے کیلئے پہلے چار سالوں میں 22 ارب ڈالر اوپن مارکیٹ میں پھینکے، اب بھی اگر آپ کے پاس اپنے ڈالر ہیں تو آپ ایسا کر سکتے ہیں۔لیکن اگر آپ کے پاس مشکل سے دو تین ہفتے کی امپورٹ کے برابر فان ایکسچینج ریزرو ہو گا تو پھر ڈالر کو اپنی اصل ویلیو پر کسی نہ کسی حکومت کو لانا ہی تھا اور روپے کی قدر گرنی ہی تھی۔اسی طرح اگر ہم انرجی کے ٹیرف کی بات کریں تو اوگرا کی جو سفارشات حکومت کے پاس آتی ہیں تو الیکشن کے سال میں انہیںن لیگ نے نہیں مانا اس کے بعد نگران حکومت نے بھی نہیں مانا اور پھر پی ٹی آئی نے بھی نہیں مانا،لیکن پھر کسی نہ کسی حکومت کو تو یہ کرنا تھا۔واضح رہےگزشتہ 2 حکومتوں، خاص کر مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے ہوشربا غیر ملکی قرضوں کے باعثپاکستان کے دیوالیہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک اںصاف کی موجودہ حکومت کو صرف ایک ماہ کے اندر اندر یعنی مئی ے ماہ تک کل 9 ارب ڈالرز کا بیرونی قرضہواپس کرنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کو 5 برس کے دوران کل 37 ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا ہے۔یہی نہیں، پاکستان کو ان قرضوں کے علاوہ سود کی مد میں بھی 6 ارب ڈالرز سے زائد ادا کرنے ہیں۔رواں سال حکومت کو قرضوں پر سود کی مد میں 2 ارب ڈالرز، جبکہ موجودہ حکومت کے آخری سال میں 95 کروڑ ڈالرز ادا کرنا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ موجود حکومت دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورچین کے علاوہ آئی ایم ایف سے بھی جلد سے جلد قرض کے حصول کیلئے سرگرم ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ اپریل کے وسط تک پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض مل جائے گا۔ حکومت کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالرز یا اس سے زائد کا قرضہ حاصل ہو جائے۔ رواں سال حکومت کو قرضوں پر سود کی مد میں 2 ارب ڈالرز، جبکہ موجودہ حکومت کے آخری سال میں 95 کروڑ ڈالرز ادا کرنا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ موجود حکومت دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورچین کے علاوہ آئی ایم ایف سے بھی جلد سے جلد قرض کے حصول کیلئے سرگرم ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ اپریل کے وسط تک پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض مل جائے گا۔ حکومت کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالرز یا اس سے زائد کا قرضہ حاصل ہو جائے۔