اسلام آباد: پاناما لیکس کے معاملے پر عمران خان کی جانب سے دھرنے کے مؤخر کرنے کے فیصلے پر عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے تحریک انصاف کا اپنا فیصلہ قرار دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر ہونے والی سماعت کو اخلاقی فتح قرار دیتے ہوئے 2 نومبر کے دھرنے کو یوم تشکر میں تبدیل کردیا۔
پاناما لیکس کے معاملے پر عمران خان کے مؤقف کے حامی ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کو مؤخر کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ‘انا للہ و انا الیہ راجعون’ پڑھ لیا۔
عوامی تحریک کے سربراہ نے کہا کہ یہ تحریک انصاف کا اپنا فیصلہ ہے، میرے پاس موجودہ صورتحال میں الفاظ نہیں ہیں اور مجھے تاحال کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔
انہوں نے کہا کہ کارکن مار کھاتے رہے لیکن عمران خان پہاڑی سے نیچے نہیں اترے لیکن دھرنا ختم کرنے کے بعد پی ٹی آئی والے عمران خان کی تلاشی لیں۔
اس موقع پر انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ بلاول بھٹو کے مطالبات نہ مانے گئے تو پیپلز پارٹی تحریک چلائے گی۔
ادھر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بہن آصفہ بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کے فیصلے پر ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں عمران خان کو ‘یوٹرن خان’ قرار دیا۔
دوسری جانب وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ حکومت کے اصولی مؤقف کی جیت ہے کیونکہ آج ہنگامہ کرنے والوں نے ناکامی پر مان لیا کہ فیصلہ دھرنوں اور ڈی چوک پر نہیں بلکہ عدالتوں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کھلنڈرا پن ختم کریں، سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ کیا جو مؤقف وزیراعظم نے اپنایا تو پھر عمران خان کو یہ ہنگامہ کرنے کی ضرورت کیا تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان نے کہا کہ اس تمام صورتحال میں عوام کا نقصان ہوا جس کے ذمے دار دونوں فریقین ہیں، مریضوں کو ہسپتال، بچوں کو اسکول اور لوگوں کو دفاتر جانے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تحریک انصاف کے اعلان پر زاہد خان نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوم تشکر کس بات پر منائیں گے یہ تو وہ جانتے ہیں کہ کس بات پر شکر ادا کریں گے لیکن انہیں کل کے جلسے میں حکومت کی مذمت ضرور کرنی چاہیے تھی۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ حکومت کی فتح ہے یا اپوزیشن کی کیونکہ اس کا دارومدار سپریم کورٹ کی اگلی کارروائی پر ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کڑا پیمانہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے تو کیا وہی پیمانہ نواز شریف کے خلاف استعمال ہو گا یا نہیں۔