راولپنڈی (ویب ڈیسک) متاثرین ٹیوٹا حیدرآباد انڈس موٹرز کی ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ ٹیوٹا کمپنی کے ڈیلر اور ایجنٹس کی ملی بھگت سے ایک سوسے زائد افراد کے ساتھ چالیس کروڑ روپے کا فراڈ ہوا ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے متاثرین تین سال سے انصاف کیلئے در بدر ہیں، نیب کراچی کے تفتیشی افسر کی تحقیقات کو مسترد کر تے ہیں اور چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے اپیل کر تے ہیں کہ کیس اسلام آباد میں منتقل کر کے ضمنی ریفرنس کے لئے نئی تحقیقات کرو ائی جائیں، متاثرین ٹیو ٹا حیدر آباد انڈس موٹرز کی ایکشن کمیٹی کے اراکین شیخ انعام ، علی اکرم آف گوجرانوالہ حامد سرفراز، عاقب جاوید آف فتح پور لیہ، سعود اعوان، سفیان باجوہ آف چوک اعظم سٹی لیہ، وسیم خان، ذیشان خان آف بنوں احمد گل آف راولپنڈی، اور دیگر شہروں سے آ ئے ہو ئے متاثرین نے صحافیوں سے گفتگو کر تے ہو ئے کہا کہ جولائی2016 میں ٹیوٹا حیدر آباد کے نمائندے اسد علی ملک نے ہمیں کہا کہ ٹیوٹا کمپنی گاڑیوں کا راولپنڈی میں اون زیادہ ہے اور ہمارے پاس حیدر آباد سندھ کا زائد کوٹہ موجود ہے آپ کو سستی گاڑیاں مل جا ئیں گی،اسد علی ملک نے کئی مرتبہ کہا کہ میں اور ٹیوٹا حیدر آباد کا مالک شعیب سو مرو دنوں پارٹنر ہیں۔شروع میں ٹیوٹا حیدر آباد موٹرز نے گاڑیاں جلد از جلد اور مارکیٹ سے کم اون پر گاڑیاں مہیا کیں، بعد میں چالیس کروڑ روپے سے زائد رقم کی 200گاڑیاں بک ہو ئیں ان کی ڈیلیوری پر 30 نو مبر2016تک ٹال مٹول کیا، جب ہم تمام متاثرین ٹیوٹا حیدر آباد موٹرز پر پہنچے تو چیک کیا تو معلوم ہوا کہ تمام گاڑیاں ڈیلیور ہو چکی ہیں اور ڈیلر شپ نے ان مالکان کے جعلی لیٹر ہیڈ اور جعلی سائن کر کے گاڑیاں بیچ کر رقم غبن کر لی ہے۔ ان متاثرین نے بتایا کہ انڈس موٹرز اور ٹیوٹا حیدر آباد نے اسد علی ملک سے لاتعلقی کا اظہار کیا، حالانکہ ٹیوٹا انڈس موٹرز کے چیف ایگزیکٹو علی اصغر جمالی کی مکمل سر پرستی ٹیوٹا حیدر آباد کے مالک شعیب سومرو اوراسد علی ملک کو حاصل تھی، اور اس تمام مافیا نے ملی بھگت کر کے گاڑیوں کی رقم خورد برد کر لی،اس سارے معاملہ پر نیب کراچی سے رجوع کیا تو نیب نے تمام مراحل سے منظورہو نے کے بعد اس کیس کو مفاد عامہ یا پبلک ایٹ لارج کے قانون کے تحت درج کیا اور اس پر انکوائری آفیسر عرفا ن علی کو مقرر کیا۔ عرفان علی نے کئی ماہ تفتیش کی اور بڑے مجرم شعیب سومرو و مالک ٹیوٹا حیدر آباد موٹرز اور اسکے پارٹنر اسد علی ملک کو گرفتار کیا گیا اور متاثرین کو خوشخبری دی گئی کہ اب رقم واپس ہو جائے گی لیکن بعد میں 26اپریل 2019 کو جب ریفرنس فائل کیا تو صرف 16گاڑیوں کو سامنے لایا باقی متاثرین کے کلیم کو شامل ہی نہیں کیا، جس پر یہ کیس بغیر ٹرائل ہو ئے جون 2019میں حیدر آباد کی نیب کورٹ سے خارج کر دیا گیا۔متاثرین نے کہا کہ یہ کیس انتہائی سیدھا ہے جو گاڑیاں ہمارے نام پر کمپنی سے نکلی ہیں ان کو پکڑ لیا جا ئے ان کے مالکان کو پوچھا جائے کہ یہ گاڑیاں کس سے خریدی ہیں اور ادائیگی کس کو کی گئی ہے تو تمام ما فیا سامنے آ جائے گا، متاثرین نے کہا کہ ٹیوٹا کمپنی کے افسران اور ڈیلر ملکر مصنوعی قلت پیدا کر تے ہیں اور اون کی رقم وصول کر کے عیاشیاں کرتے ہیں، کمپنی کی جانب سے کوٹہ سسٹم کا جائزہ لیا جائے کہ جہاں کھپت زیادہ ہے وہاں کم کوٹہ اور جہاں کھپت کم ہے وہاں زیادہ کوٹہ دیا جاتا ہے اور اپنے ایجنٹس کے ذریعے ملک بھر میں سرمایہ کاروں کو تلاش کر کے ان کو گاڑیاں بھاری اون سے کچھ کم کا لالچ دیکر بیچی جاتی ہیں اور جب زیادہ گاڑیوں کی بکنگ ہو جاتی ہیں تو ان کے ساتھ فراڈ کر دیا جاتا ہے۔