لاہور (ویب ڈیسک) جو کچھ سینیٹ میں گزشتہ ہفتے دیکھا گیا، وہ انتہا کی بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ تھا جس میں معاشرہ کے وہ لوگ شامل تھے جو اپنے آپ کو لیڈر کہلواتے ہیں، جن کو اصولاً اپنے کردار اور اخلاقی اقدار کے اعتبار سے سب سے بہتر اور دوسروں نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کے لیے رول ماڈل ہونا چاہئے لیکن اپنے آپ کو ایوانِ بالا کے ممبر کہلوانے والے سینیٹرز نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ اُن کی حیثیت منڈی میں بولی کے ذریعے بکنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ سینیٹ کا ادارہ ہمیشہ سے خرید و فروخت کے دھندے کی وجہ سے بدنام رہا لیکن اس بار تو کمال کا تماشا ہوا کہ اپوزیشن کے 64سینیٹرز سینیٹ میں ایک ساتھ کھڑے ہو کر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی حمایت کرتے ہیں اور پھر اگلے ہی لمحے شروع ہونے والی سیکرٹ ووٹنگ میں ان 64میں سے 14سینیٹرز سنجرانی کے حق میں ووٹ ڈال دیتے ہیں یا جان بوجھ کر اپنا ووٹ ضائع کر دیتے ہیں تاکہ یہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے۔ یعنی اپنی اپنی پارٹیوں سے وعدہ کیا کہ عدم اعتماد کی اس تحریک کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، بار بار شو آف پاور کے لیے جو کھانے کیے جاتے رہے یا جو اپوزیشن کی میٹنگز ہوتی رہیں، اُن میں بھی کسی نے نہیں کہا کہ وہ اس تحریک کے خلاف ووٹ دے گا لیکن جب وقت آیا تو یہ افراد ضمیر فروشی کی نئی داستان کا حصہ بن گئے۔جو خبریں سامنے آ رہی ہیں اُن کے مطابق اس بے ضمیری کا مظاہرہ کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی اور پھر نون لیگ سے ہے جو ان دونوں سیاسی جماعتوں کے لیے بڑے شرم کا مقام ہے۔ ان میں سے ایک سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں تو یہ بھی کہا گیا کہ وہ تو خود ہی بک گئی تھی۔ خبروں کے مطابق الیکشن سے ایک دن قبل ایک بڑے کاروباری شخص نے اس پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں کچھ گنے چنے پارٹی سینیٹرز کو کہا گیا کہ وہ سنجرانی کے حق میں ووٹ ڈال دیں۔ نون لیگ کے سینیٹرز کیسے بدل گئے اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، اس بارے میں ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا لیکن یہ واقعہ ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست کے لیے بھی کسی سانحہ سے کم نہیں۔ اس واقعہ نے ایک بات پھر ثابت کیا کہ یہاں سیاست جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، ضمیر فروشی اور حرام پیسہ کمانے اور اسے بچانے کا نام ہے۔ بے شک سیاست اور پارلیمنٹ میں اچھے اور باکردار لوگ بھی موجود ہیں لیکن یہ کیسی سیاست ہے جس میں جھوٹ اور فراڈ کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے اُنہیں نکالنے کے بجائے دوسروں پر الزام تراشی کی جا رہی ہے۔ بندے اپنے گندے ہیں اور گلہ دوسروں سے۔ جب گند کو سیاست میں لائیں گے، جب سفارش، پیسہ اور اقربا پروری کی بنیاد پر سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ٹکٹ دیں گے تو پھر سیاست ہی گندی ہوگی، پھر دوسروں کے لیے سیاست کو مزید گندا کرنے اور سیاستدانوں کو استعمال کرنے کے مواقع ہی پیدا ہوں گے۔دیکھتے ہیں کہ اس سیاسی سانحہ سے نون لیگ اور پی پی پی کیا سبق لیتی ہیں۔ کہنے کو تو دونوں پارٹیوں نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ بکنے والے سینیٹرز کی نشاندہی کی جا سکے لیکن ان بکنے والے سینیٹرز کو نکالا بھی جائے گا یا نہیں، اس بارے میں مجھے یقین نہیں۔ یہاں تو ایک سیاسی جماعت سے گند صاف کرنے کے لیے اُس جماعت کی اعلیٰ قیادت کی ہی صفائی کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو ممکن نہیں اور یوں سیاست جھوٹ، دھوکہ، فراڈ اور کرپشن کا ہی نام رہے گا۔ اس گندگی کے ساتھ سیاست کیسے معتبر ہو سکتی ہے