آج شام بھارتی ریاست ’’راجستھان‘‘ کے مرکزی اور مشہور شہر، جے پور، میں سالانہ جنوبی ایشیائی صُوفی میلہ چار دن تک مسلسل جاری رہنے کے بعداپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ پچھلے تیس برسوں کے دوران منعقد ہونے والا یہ 54واں صُوفی میلہ ہے۔ اصولی طور پر اس میں ’’سارک‘‘ کے آٹھوں ممالک کے فنکاروں اور دانشوروں کو شریک ہونا تھا لیکن بھارتی سازش اور شرارت سے پاکستان کو اِس متنوع میلے سے منہا کر دیا گیا ہے۔ 6 تا 9 اکتوبر جاری رہنے والے متذکرہ میلے میں 130 ممتاز مقامی و عالمی شہرت یافتہ صوفی اسکالرز اور اہلِ دانش نے شرکت کی ہے۔
افغانستان سے 30، بنگلہ دیش سے 20، نیپال سے 12، سری لنکا سے 10، بھوٹان و مالدیپ سے پانچ پانچ اور باقی بھارت سے۔ صوفی میلے کی روحِ رواں اور منتظمِ اعلیٰ اجیت کور، جو بھارت کی ایوارڈ یافتہ ادیبہ اور شاعرہ ہیں، نے ایک بھارتی اخبار کے استفسار پر بتایا ہے کہ ’’ہم نے 20 پاکستانی دانشوروں کو مدعو کرنے کے لیے بھارتی وزارتِ خارجہ ایم ای اے اور وزارتِ داخلہ ایم ایچ اے سے رابطہ کیا تھا تا کہ پاکستانیوں کے لیے ویزوں کا بندوبست کیا جائے لیکن دونوں وزارتوں نے سرے ہی سے کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘ رواں سال کے ماہ فروری کے دوران بھارت میں منعقد ہونے والے مشہور ادبی میلے میں بھی پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کو بھارتی حکومت نے شریک نہیں ہونے دیا تھا۔ پچھلے تین، ساڑھے تین برسوں کے دوران بھارتی خفیہ اداروں اور بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان پر چاروں اطراف سے شدید دباؤ ڈالنے کی جو کوششیں جاری کر رکھی ہیں، مذکورہ بالا دونوں واقعات اِسی بھارتی سٹریٹجی کا حصہ ہیں۔
جے پور کے صُوفی میلے میں پاکستانی دانشوروں کی شرکت ناممکن بنا کر بھارت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان سے مسلسل کٹّی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت پر مگر واضح رہنا چاہیے کہ وہ دباؤ کے یہ ہتھکنڈے بروئے کار لا کر بھی اپنے ایجنٹ کلبھوشن یادیو، جو بلوچستان اور سندھ میں بے پناہ تباہی پھیلانے کا ذمے دار ہے، کو زندہ حاصل نہیں کر سکے گا۔ 5 اکتوبر2017ء کو ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور، نے اخبار نویسوں کو جو مفصل پریس بریفنگ دی ہے، اس میں بھی پاکستان دشمن کلبھوشن کے بارے واضح اشارے دیے گئے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی دباؤ کے باوجود پاکستان کو اپنے ڈھب پر نہیں لایا جا سکا ہے۔ یوں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کسمسا کر رہ گئی ہے۔
پاکستان مخالف تمام تر بھارتی سازشوں اور شرارتوں کے باوجود پاکستان نے (مکالمے کے لیے) بھارت پر اپنے دروازے بند نہیں کیے ہیں۔ اِس کا تازہ ثبوت یہ بھی ہے کہ ابھی چند دن پہلے پاکستان نے بوہرہ کمیونٹی کے بارہ ہزار بھارتی شہریوں کو ویزے جاری کیے تھے جنہوں نے کراچی میں اپنی مذہبی تقریبات میں حصہ لیا ہے اور ابھی پانچ اکتوبر ہی کو یہ لوگ واپس بھارت گئے ہیں۔
مودی صاحب مگر اجیت ڈوول ایسے سلامتی مشیروں (جنہوں نے پاکستان دشمنی کی گویا قسم کھا رکھی ہے) کے خطرناک مشوروں پر عمل پیرا ہیں۔ یہی مشیر ہیں جنہوں نے نریندر مودی کو مجبور کیا ہے کہ وہ سندھ طاس ایسے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کریں اور پاکستان کا پانی روک لیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، ہیڈمرالہ کے مقام پر دریائے چناب کا پانی 15034کیوسک رہ گیا ہے، حالانکہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت روزانہ دریائے چناب میں 55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے۔
بھارت روزانہ پاکستان کا 35 ہزار کیوسک پانی چوری کر کے دراصل پاکستان کو چیلنج بھی کر رہا ہے اور اِس خطرناک ہتھکنڈے سے پاکستان کی معیشت اور زراعت پر دباؤ بھی ڈال رہا ہے۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بھارتی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ نہایت بے شرمی سے یہ بھی پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ ’’میانمار کی شدت پسند تنظیم اے آر ایس اے اور اس کے ایک مرکزی لیڈر (عمار جنجونی) کو پاکستان تربیت دے رہا ہے۔‘‘
یہ ایسی گھناؤنی تہمت ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ چونکہ آجکل امریکا بوجوہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو سخت تنقید کا ہدف بنائے ہُوئے ہے؛ چنانچہ بھارت نے بھی امریکی نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام، جو تمام تر محفوظ اور پُر امن ہیں، کے خلاف اپنے تھنک ٹینکس میں منفی پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر: 7 اکتوبر 2017ء کو امریکی وزیر دفاع جیمز مَیٹس نے واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی ’’آرمڈ سروسز کمیٹی‘‘ کے رُوبرو یہ غلط بیانی کی ہے کہ ’’سی پیک‘‘ متنازع علاقوں سے گزر رہی ہے۔‘‘ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ امریکی وزیر دفاع نے یہ دل آزار اور غیر حقیقی بیان عین اُس وقت دیا جب پاکستان کے وزیر خارجہ (خواجہ آصف) ابھی سرکاری دَورے پر امریکا ہی میں تھے۔ بھارت اِس بیان پر پھر بغلیں کیوں نہ بجائے؟
مسلسل ایسے واقعات رُونما ہو رہے ہیں جو اس بات کی چغلی کھا تے ہیں کہ بھارت، امریکا اور افغانستان متحدہ دباؤ ڈال کر پاکستان کا سر جھکانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان اور ’’سی پیک‘‘ کو گزند پہنچانا اِس اتحادِ ثلاثہ کا مشترکہ مقصد ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل، 25 اگست کو، واشنگٹن کے پریس کلب میں جو نام نہاد پریس کانفرنس کروائی گئی، وہ بھی اِسی منصوبے کا شاخسانہ تھی۔ بظاہر اِس کا اہتمام امیریکن فرینڈز آف بلوچستان نامی ایک تنظیم نے کیا۔
پاکستان کے خلاف الزام لگانے اور تہمتوں کا طومار باندھنے کے لیے معاندینِ پاکستان نے ہر حد عبور کر لی ہے۔ مقصد یہی نظر آتا ہے کہ پاکستان پر اتنا دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ گھٹنے ٹیک دے۔ لیکن انشاء اللہ یہ نوبت آ سکتی ہے نہ کبھی آئے گی۔ ستم کی بات یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک میں اگر پاکستان کے کسی فرد کی جانب سے ان منفی پروپیگنڈوں کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کوشش کو ناکام اور سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اوسلوکے ’’نوبل پِیس سینٹر‘‘ اور ’’یونیورسٹی آف لنڈن‘‘ میں جب سابق صدرِ پاکستان پرویز مشرف نے پاکستان کا موقف بیان کرنے کی کوشش کی تو اُن کے جلسے اُلٹا دیے گئے۔
ہماری مشرقی سرحدوں اور ایل او سی پر مسلسل بھارتی فائرنگ سے آئے روز پاکستانی جس تسلسل کے ساتھ شہید ہو رہے ہیں، یہ المیہ تو اپنی جگہ سنگین ہے ہی لیکن بھارت سے شہ پا کر افغانستان نے بھی ہماری مغربی سرحد کو جس طرح غیر محفوظ بنانے کی بھونڈی کوشش کی ہے، اس نے پاکستان پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران پاک افغان سرحد پر افغان دہشتگردوں کے ہاتھوں پاک فوج کے لیفٹیننٹ ارسلان عالم اور نائب صوبیدار اظہر علی کا شہید ہونا معمولی واقعات نہیں ہیں۔
یقیناً ان خونی حملوں کے عقب میں بھارت ہے۔ اِسی لیے تو وزیر خارجہ خواجہ آصف کو دو دن پہلے امریکا میں یہ کہنا پڑا ہے: ’’پاکستان کی اصل تشویش افغانستان پر نئے امریکی منصوبے میں بھارتی کردار ہے۔‘‘ سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ بھی دنیا کو یہی سمجھانے اور باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا مگر بھارتی پروپیگنڈے کے سحر میں گرفتار ہے۔