افسانہ ، انشائیہ ، خاکہ ، شاعری ، تبصرہ غرض اردو کی ہر صنف میں منفرد کام سے اپنا نام پیدا کیا ، مختلف اخبارات میں کالم نویسی بھی کی
لاہور (یس اُردو) یہ چیز تھی کہاں کہاں ڈال دی گئی ، بوڑھے بدن میں روح جواں ڈال دی گئی ، اردو ادب کے مشہور نقاد صحافی ، شاعر ، ادیب محمد انوار الدین جن کو لوگ انور سدید کے نام سے جانتے ہیں آج سرگودھا میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ 4 دسمبر 1928 کو قصبہ میانی بھلوال سرگودھا میں پیدا ہوئے ۔ افسانہ ، تنقید ، انشائیہ ، خاکہ، ادارت ، شاعری ، تبصرہ ، اَدبی صحافت ، جائزہ نویسی ، شخصیت نگاری جتنی بھی اَدب کی معلوم جہات و اصناف ہیں ، اگر کسی نابغہ عصر ہستی نے سب میں اور سب سے زیادہ تاریخ ساز ، بے مثال اور یادگار کارکردگی اور تخلیقی سطح پر اظہار کیا ہے تو وہ صرف اور صرف بابائے اَدب ڈاکٹر انور سدید کی ذات باصفات ہے ۔ انور سدید نے ایم اے اردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا ۔ “اردو ادب کی تحریکیں ” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جو کہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے ۔ انور سدید محکمہ آبپاشی میں بطور ایگزیکٹو انجینئر ریٹائرڈ ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تمام عمر اردو کے فروغ میں صرف کر دی ۔ ان کی مشہور تضانیف ، تحقیق اُردو افسانے میں دیہات کی پیشکش ، اُردو اَدب میں انشائیہ ، اُردو اَدب کی مختصر تاریخ ، اُردو افسانے کی کروٹیں ، اُردو اَدب میں سفر نامہ شامل ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب مختف اردو انگریزی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں