لاہور (ویب ڈیسک) ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ امریکی اور جرمن انٹیلیجنس سروسز نے کئی دہائیوں تک پاکستان سمیت دیگر حکومتوں کی خفیہ معلومات ایک انکریپشن کمپنی کے ذریعے حاصل کیں۔ اس آپریشن کو کسی بھی خفیہ ادارے کی طرف سے صدی کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔
نامور صحافی اعظم خان بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق افسر میجر عامر اس دعوے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس کی دنیا میں کسی بھی آپریشن اور حربے کو عجوبے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ ان کے خیال میں جرمن اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے وہی کیا جو خفیہ ایجنسیوں کو کرنا ہوتا ہے۔تفصیلات کے مطابق سوئس کمپنی کرپٹو اے جی نے سرد جنگ سے لے کر 2000 کی دہائی تک 120 حکومتوں کو ان کوڈنگ ڈیوائسز (یعنی وہ آلات جو خفیہ پیغامات کو چھپانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں) فراہم کی تھیں۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ان ممالک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کمپنی کی اصل خفیہ مالک سی آئی اے جس کا مغربی جرمنی کی خفیہ ایجنسی سے اشتراک تھا۔میجر عامر کے مطابق اس نیٹ ورک سے بس ایک طریقہ کار کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ سب کیسے ہوتا رہا لیکن خفیہ ادارے ہر وقت ہی سرگرم رہتے ہیں۔ اس میں اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس اب ہمیں زیادہ چوکنا ہونا ہوگا۔امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے اور جرمن انٹیلیجنس بی این ڈی کے اشتراک سے معلومات چوری کرنے کے اس انتہائی حساس پروگرام کی تفصیلات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ، جرمن براڈ کاسٹر ذی ڈی ایف، اور سوئس چینل ایس آر ایف نے شائع کی ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان دونوں اداروں کے جاسوسوں نے ان آلات میں ایک ایسا نظام رکھا جس کے ذریعے وہ ان حکومتوں کے خفیہ پیغامات چوری کر سکتے تھے۔
جب بی بی سی نے انٹیلجنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک سے اس امریکی اور جرمن جاسوسی سے متعلق ان کی رائے جاننے کے لیے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے جواب ایک سوال کی صورت میں اس طرح دیا کہ ’کیا جو بات میں اور آپ فون پر کر رہے ہیں کیا یہ محفوظ ہے۔‘میجر عامر کی رائے میں ہر ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے نیٹ ورک کا سراغ لگائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی بھی ایسے حربے اور آپریشن کرتی ہے۔انھوں نے انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ کامیاب آپریشن تھے جو ہم نے کیے اور باہر کے جاسوسی کے نیٹ ورک کو ناکام بنایا۔ان خبر رساں اداروں کو سی آئی اے کی ایک تاریخی داخلی دستاویز ملی جس میں اس آپریشن کو گذشتہ صدی کے دوران انٹیلیجنس کی دنیا کی سب سے بڑی ‘کارروائی’ قرار دیا گیا۔مسعود خٹک کے مطابق ’ورلڈ آف انٹیلجنس‘ اسی طرح کے حربوں پر ہی کھڑی ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ ’اس میں اچھے اور برے کا تصور موجود نہیں ہے۔‘میجر عامر کے مطابق گذشتہ صدی میں جہاں پاکستان نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر جنگ بھی لڑی اور وہیں دونوں نے ایک دوسرے کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے کے لیے جاسوسی بھی کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام میں امریکہ کو خاص دلچسپی ہے اور اس بارے میں ہمیں بھی
کبھی کوئی شبہ نہیں رہا کہ ہم نے اپنا تحفظ کیسے یقینی بنانا ہے۔مسعود خٹک کا کہنا ہے کہ یہ گھوڑوں کا دور نہیں ہے کہ کوئی چھپ کے نکل جائے گا اور اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکے گا۔ یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور اگر کوئی فون بند کر کے بھی بات کرتا ہے تو یہ بات چیت بھی محفوظ نہیں رہتی۔ انٹیلیجنس کی دنیا میں جدت کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اب تو ہر کوئی ہاتھ میں ایک کوڈ مشین (موبائل فون) لے کر گھوم رہا ہے۔ایک روسی موجد بورس ہیگلن نے ایک پورٹیبل انکرپشن مشین اس وقت تیار کی تھی جب 1940 کی دہائی میں وہ ناروے پر نازی قبضے کے دوران امریکہ فرار ہوئے تھے۔یہ مشین اس قدر چھوٹی تھی کہ اسے میدانِ جنگ میں فوجیوں کے حوالے کیا جا سکتا تھا۔ 140000 امریکی فوجیوں کو یہ مشینیں دی گئیں۔مگر جب دوسری جنگِ عظیم اختتام پذیر ہوئی تو ہیگلن سوئٹزرلینڈ منتقل ہوگئے۔ان کی ٹیکنالوجی اس قدر پیچیدہ ہوگئی کہ امریکی حکومت کو یہ پریشانی لگ گئی کہ وہ دیگر حکومتوں کی خفیہ معلومات چوری نہیں کر سکیں گی۔ تاہم پھر بہترین امریکی کوڈ بریکر ولیم فریڈمن نے ہیگلن کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ جدید ترین مشینیں صرف ان ممالک کو فروخت کریں جن کی امریکہ اجازت دے۔جو پرانی مشینیں تھیں، جن تک رسائی حاصل کرنا سی آئی اے کو آتا تھا، وہ دیگر حکومتوں کو بیچی گئیں۔1970 کی دہائی میں امریکہ اور جرمنی نے کریپٹو خرید لی اور اس آپریشن کے تمام تر عناصر بشمول ملازموں کی تقرری، ٹیکنالوجی کا ڈیزائن اور فروخت کی سمت، سبھی کچھ کنٹرول کرنے لگے۔ماضی میں اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کئی بار کیا جا چکا ہے تاہم اس کا ثبوت پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔(بشکریہ : بی بی سی )