تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
جس نے ایک آزاد مسلمان کو کسی غیر کے ہاتھ بیچا، میں قیامت کے دن خود اس کے خلاف مدعی ہوں گا (بخاری 2280) رحمت اللعالمین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان پاکستانی قوم (عوام و حکمرانوں )کے لیے ہے۔ پاکستانی قوم (حکمران اور عوام )نے اپنی مسلمان بیٹی ڈالروں کے لیے، امریکہ کی خوشنودی کے لیے بیچ دی۔ جب ایسے ظلم پر بے حسی، خاموشی، لاتعلقی کا رویہ عوام میں ہو تو عوام اس جرم سے خود کو بری الذمہ کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ جب ایسے بے حس حکمرانوں کو عوام منتخب کرتی ہے۔ اس لیے ہم نے لفظ قوم لکھا ہے جس میں عوام اور حکمران دونوں شامل ہیں۔اسلام آباد کی عدالت میں ایک درخواست میں کہا گیا تھا کہ عافیہ کو ڈالروں کے عوض فروخت کیا گیا ہے۔اسی بات کو سابق صد ر پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے (کہا جاتا ہے)۔
چند سال قبل ایک امریکی وکیل نے کہا تھا ” پاکستانی ڈالروں کے لیے اپنی ماں بیچ دیتے ہیں” تو اس نے کیا غلط کہا تھا۔ اس وقت پاکستان کی غیرت کے علمداروں کو بہت غصہ آیا تھا زیادہ پرانی بات نہیں ،پھر وقت کے ساتھ ہماری غیرت مر گئی اس بات کو بھول گئے ۔ہم پاکستانی ایسے کام ہی کیوں کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہم کو ایسا کہا جاتا ہے ۔ان بے حسی کے کاموں میں سے ایک کام خود پاکستانی قوم کااپنی بیٹی عافیہ کو بیچنا اور پھر اس کی رہائی کے لیے جہدو جہد نہ کرنا بھی شامل ہے ۔ جاوید چودھری نے چند د ن قبل ایک کالم لکھا اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کیا ہم نے مونگ پھلی کے چند دانوں کے لیے خود کو افغان وار میں نہیں جھونکا ،مثلا کیا ہم ڈالروں کے لیے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی نہیں بنے ،مثلا کیا ہم نے امریکہ کو متاثر کرنے کے لیے لال مسجد پر فوج کشی کر کے تحریک طالبان کی پاکستان میں بنیاد نہیں رکھی،کیا یہ چند ارب ڈالروں کا لالچ نہیں تھا جس نے ملک کو تباہی کے دھانے پر نہیں پہنچا دیا آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم یا صدر جب کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو یہ وہاں امداد کی جھولی پھیلا دیتے ہیں وہ مزید لکھتے ہیں کہ اپنی اس (لالچ) کی پالیسی کے صدقے دنیا میں لالچی اور بھکاری سٹیٹس ہو چکے ہیں۔
ان کے کالم کا مرکزی خیال ہے کہ ہم لالچی ہیں ،بے حس ہیں ،اور بے حسی کو بہادری کہتے ہیں۔ عافیہ کو 2003 میں گلشن اقبال کے علاقے سے اغوا کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے اسے گرفتار (جسے اغواکہنا چاہیے)کر کے ایف بی آئی کے حوالے کر دیا ۔(بیچ دیا)پاکستانی حکومت نے اس وقت بھی میڈیا پر آنے والی خبروں کی تردید کی تھی جن کے تحت پاکستان کے خفیہ ادارے (آئی ایس آئی) کے بارے میں یہ کہا گیا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس نے عافیہ کو اغوا کیا اور امریکہ کے حوالے کیا ۔ بعد میں یہ بات ثابت ہو گئی ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پانچ سال جب خفیہ حراست میں رکھا گیا تو ان کے بیٹے احمد ( پیدائش1996 )مریم (پیدائش1998 )دونوں کو اس سے الگ قید رکھا گیا ،اور اس کے سب سے چھوٹے بیٹے سلیمان کو ان کے ساتھ ہی رکھا گیا جو کہ قید کی سختی کو برداشت نہ کرتے ہوئے انتقال کر گیا ۔جب عافیہ کی بہن اوروالدہ کو عافیہ کے اغوا کا یقین ہوا تو انہوں نے اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے عافیہ اور بچوں کی بازیابی کی درخواست کی۔( جو اس وقت سے لے کر اب تک ہر حکمران سے وہ کرتی چلی آ رہی ہیں اب ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے چند دن قبل آرمی چیف راحیل شریف اور وزیر اعظم جناب نواز شریف سے بھی اپیل کی ہے) ۔جب عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا تو ان دنوں ان کی والدہ نے عالمی میڈیا کو یہ بھی بتایا تھا ۔کہ انہیں چند موٹر سائیکل سواروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنی بیٹی عافیہ کی سلامتی چاہتی ہیں تو اس کی پر سرار گمشدگی کا کسی سے بھی ذکر نہ کریں ۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے عافیہ کو 5 برس تک پس پردہ رکھا گیا ۔اس دوران اس کے بارے میں کبھی کبھی کوئی خبر کہیں سے اڑتی اڑتی آ جاتی۔
عافیہ کی گمشدگی کا کسی کو علم نہیں تھا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کہ پاکستانی نژاد برطانوی صحافی معظم بیگ (جو کہ بگرام جیل اور گوانتاموبے میں قید رہ چکا تھا)نے کتاب لکھی جس میں ایک خاتون کا ذکر کیا جوجس کا نام قیدی نمبر650 تھا اس کی کوئی شناخت نہ تھی۔معظم بیگ کے بارے میںیہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اسے بھی پرویز مشرف دور میں اسلام آباد سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا ۔ریڈلی جو کہ برطانوی صحافی تھیں ،طالبان کی جیل میں رہیں ، ان کے اخلاق سے متاثر ہو کرمسلمان ہو گئیں ،ان کو بھی معظم بیگ کی طرح گوانتاموبے کے قید خانے میں رکھا گیا اور ان دونوں کو صرف برطانوی شہریت رکھنے کی وجہ سے برطانیہ نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے آزاد کروایا ۔ معظم بیگ نے کتاب لکھی جس میں عافیہ کا ذکر تھا ۔ انہی دنوں معروف صحافی ریڈلی (جو کہ طالبان کی قید میں بھی رہی اور ان کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو گئی) نے اپنی کتاب میں بگرام کی جیل میں ایک قید ایک خاتون کا ذکر کیا جسے “گرے لیڈی آف بگرام” کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔7 جولائی 2008 کو برطانوی صحافی ریڈلی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور یہ انکشاف کیا کہ قیدی 650 عافیہ صدیقی بگرام جیل میں قید ہے ۔اور اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہو رہا ہے۔ اس نے اپنی کانفرنس میںجو کہا وہ پڑھیں اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں ۔کہ کب تک ہم ایسے حکمرانوں کو منتخب کرتے رہیں گے ۔انہوں نے کہا تھا کہ میں تو ایک نو مسلم ہوں ،مجھے اسلام کی حقانیت کا علم ہے ،میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن کو غیر مسلموں کے حوالے کر دے کہ وہ اسے جسمانی،ذہنی،اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائیں ۔18 کروڑ لوگوں کی بے حسی پر ایک نومسلم کا یہ تھپڑ ہے ۔ دوسرا تھپڑجب عافیہ پر مقدمہ چلا اس کو سزا سنائی گئی تو ان کی وکیل اور ترجمان ٹینا فوسٹر کا یہ کہنا کہ عافیہ کو سزا صرف اور صرف پاکستانی حکومت کی بے حسی ،لاپرواہی ،اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہوئی۔
ان دو واقعات کے بعد امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو۔ 5 اگست 2008 کو نیویارک کی عدالت میں پیش کیا ،ان پر جو الزام لگایا گیا مکمل جھوٹ کا پلندہ تھا کہ عافیہ کو 17 جولائی کو گورنر غزنی کے دفتر کے باہر سے گرفتار کیا گیا ہے اس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے اور یہ بیگ میں کچھ خطرناک سیال مادے تھے ۔ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بگرام جیل میں امریکی فوجیوں پر ایک محافظ سے گن چھین کر گولیاں چلائیں اور جوابی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئیں ۔دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین نے اس کہانی کو ناقابل یقین کہا ہے ۔کیونکہ عافیہ صدیقی کا گن اٹھانے کا کوئی طبعی ثبوت نہیں تھا (ڈی این اے) ،گولیوں کے خول کسی دیوار میں سوراخ کی عدم موجودگی وغیرہ کی وجہ سے جبکہ جس گن سے عافیہ پر گولیاں چلائی گئیں ان کے خول،دیواروں میں سوراخ بھی ہیں ،اور ان سے عافیہ زخمی بھی ہوئیں جبکہ عافیہ (پر جو الزام ہے)کی گولیوں سے کوئی زخمی بھی نہیں ہوا ۔اسی ناکردہ جرم کی وجہ سے عافیہ کو 86 سال قید کی سزا ہوئی ہے ۔صرف یہ ہی مقدمہ تھا جس کی بنا پر اسے سزا ہوئی ۔اس پر جو مقدمہ بنایا گیا اس میں اس پر القاعدہ سے تعلق یا دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں تھا ۔عافیہ پر جو مقدمہ نیویارک میں درج ہوا اس میں اس پر فوجیوں پر قاتلانہ حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا جس میں کوئی قتل نہیں ہوا ،بلکہ حملہ کیا بھی ہے کہ نہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔عافیہ کو 86 برس قید تنہائی کی سزا سنا دی گئی ۔امریکہ کے عدلیہ انصاف پر عافیہ کے قید کی سزا سراسر نا انصافی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972 کو کراچی کے ایک مذہبی ،متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے 43 یوم پیدائش2 مارچ 2015 کو ہے اور اسی ماہ 30 مارچ کو اسے قید ہوئے 12سال مکمل ہو رہے ہیں ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جو انتہائی پڑھا لکھاہے۔ان کے والد محمد صدیقی ڈاکٹر تھے ۔عافیہ نے قرآن حفظ کیا۔عافیہ نے اپنی تعلیم کا بڑا حصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیا ۔جہاں انہوں نے MIT کے تحت بائیالوجی میں گریجویشن کی ،۔اس کے بعد امریکہ میں ہی علم الاعصاب (دماغی علوم ) پر تحقیق کر کے PHD کی ۔اس دوران ان کے کچھ تحقیقی مضامین بھی ۔ مختلف جرائد میں شائع ہوئے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے دوران تعلیم سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،جس میں بوسنیا کی جنگ میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے فنڈ جمع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے پاکستانی نژا دڈاکٹر امجد خان سے شادی کی جس سے تین بچے ہوئے بڑا بیٹا احمد ،مریم،سلیمان یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی طلاق ہو گئی ۔ بیوی میں لڑائی ہوئی اور ڈاکٹر امجد نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بوتل دے ماری جس سے وہ ہسپتال جا پہنچی اس بات کو بعد ازاں ڈاکٹر امجد خان نے قبول بھی کیا ۔ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے والد کا انتقال ہوا 2001 میں تو وہ وطن واپس آئیں ،اس وقت ڈاکٹر عافیہ کے تیسرے بچے سلیمان کی پیدائش متوقع تھی کہ ڈاکٹر امجد نے ان کو طلاق دے دی اور دوسری شادی کر لی ۔طلاق کے بعد ڈاکٹر عافیہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنی والدہ کے ساتھ کراچی میں رہنے لگی ۔جو کہ گلشن اقبال میں مقیم تھیں ۔30 مارچ 2003 کو عافیہ صدیقی اپنی والدہ کے گھر سے کراچی ائر پورٹ کے لیے ٹیکسی میں سوار ہوئیں ان کے ساتھ تین بچے تھے بڑا بیٹا احمد اس وقت چار سال کا ،اس سے دو سال چھوٹی بیٹی مریم اور سلیمان صرف ایک ماہ کا تھا اورعافیہ کی عمر 31 سال تھی ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی دوسری شادی 9/11 کے حملے کے ماسٹر مائنڈ شیخ محمد خالد کے بھتیجے عمر بلوچ سے ہوئی ۔یہ ہی سب سے بڑی وجہ ہے جو ان کا تعلق القاعدہ سے جوڑا جاتا ہے ۔جس وقت عافیہ کو اغوا کیا گیا اس وقت وہ آغا خان ہسپتال کراچی میں کام کر رہی تھیں ۔اس کی 5 سال قید کے دوران اور اب تک جب عافیہ پر کیے جانے والے ظلم کا سوچتے ہیں تو دل میں ایک ہوک اٹھتی ہے ،اور جس بے انصافی سے انصاف کیا گیا ہے اس پر دل میں ایک طوفان اٹھتا ہے جو اپنی بے بسی حکمرانوں کی بے حسی کی دیواروں سے سر ٹکرا کر رہ جاتا ہے ۔قارئین اس دکھ کو قلم بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا جب تصور کی آنکھ سے ایک بے بس مجبور (جس کے وطن کے حکمرانوں نے ہی اسے بیچ دیا) عافیہ کے جسم کو سگریٹ سے داغا جاتا ہو گا ۔ٹھوکریں ماری جاتیں ہوں گی ،ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہو گا ،اس ہم مذہب ،ہم وطن آرام سے اس وقت سوتے رہے ،عوام نے کوئی تحریک نہ چلائی ،حکمرا ن کرسی بچاتے رہے ،اور اپوزیشن حکومت گراتی رہی ۔ایک طرف وطن کی بیٹی کی عزت لوٹی جاتی رہی اور اس کے وطن کے شاہین کرکٹ کا میچ دیکھتے رہے ،جو ظلم عافیہ پر ہوئے میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ میں اس وحشت و بربریت کو بیان کر سکوں ۔جناب لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ قیدی نمبر 650 کو جیل کا عملہ مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا ۔کہا جاتا رہا ہے کہ قیدی مسلسل اذیت کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہے اور ہر وقت چیختی رہتی ہے ۔لیکن پاکستان کی قوم (عوام و حکمران ) تک اس کی چیخیں نہ پہنچ سکیں ۔قوم کی بیٹی آج جس حال میں ہے وہ غیرت مندوں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے ،لیکن ہم ذلت کی اس پستی میں پہنچ چکے ہیں جہاں ایسی چیخیں ہم کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2003 سے 2015 تک امریکی قید میں ہے اس دوران ایسے بہت سے مواقع آئے جب اس کا امریکہ سے مطالبہ کیا جا سکتا تھا مگر ہماری حکومت نے ایسا نہیں کیا سب سے اچھا موقع ریمنڈ ڈیوس کا تھا ۔چھوڑ تو اسے ویسے ہی دینا تھا پاکستان نے اس کے بدلے میں اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔دوسرا موقع شکیل آفریدی کا تھاامریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے ۔کیونکہ اس نے اسامہ بن لادن جس کو امریکہ اپنا نمبر ایک دشمن خیال کرتا تھا اس کے گرفتار کروانے ،ڈھونڈنے میں امریکہ کی مدد کی تھی ۔اسی طرح ریمنڈ ڈیوس امریکی جاسوس تھا اس کی رہائی کے لیے امریکی صدر نے فون کیا تھا اور ہم (عوام و حکمران ) نے اسے رہا کر دیا حالانکہ وہ تین افراد کا قاتل تھا ۔اس کے بدلے میں ہم عافیہ کو حاصل کر سکتے تھے ۔اور شکیل آفریدی کے تبادلے میں بھی ہم عافیہ کو حاصل کر سکتے تھے۔اسی طرح ائر پورٹ لاہور اور کراچی سے بھی کئی امریکی جاسوس گرفتار ہوئے ہیں ان کے تبادلے میں عافیہ کی رہائی ممکن ہے۔سندھ ہائی کورٹ 13 جولائی 2013 کو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی پیٹیشن پر فیصلہ دے چکی ہے کہ جس میں اس نے حکومت پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ قیدی کے تبادلہ کے قانوں پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ اگر حکومت پاکستان امریکہ سے درخواست کرے کہ ہم عافیہ کو پاکستان میں قید رکھیں گے تب بھی بین الاقوامی قانون کے تحت اسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اگر پاکستانی وزیر اعظم امریکہ سے عافیہ کی رہائی کا کہے تو بھی ممکن ہے ۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ(التجا) کی ہے کہ وہ اس کی بہن کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور محترم وزیر اعظم سے بھی اپیل کی ہے اور مزیدکہا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ عافیہ کی وطن واپسی میں کیا رکاوٹ ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی تقاضے بھی پورے ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن نے ” عافیہ موومنٹ ” بنائی اس کے تحت وہ در در جا کر انصاف کے لیے ،عافیہ کی رہائی کے دھکے کھا رہی ہے ۔اور ہمارے صاحب اختیارات ،اور سیاست دان وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں صرف اخباری بیانات پر عافیہ کی رہائی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال