counter easy hit

بے حس معاشرے کے لاپرواہ حکمران۔۔۔

Stop Child Labour

Stop Child Labour

پھولوں کی طرح خوبصورت اور معصوم بچے جن کے خواب بھی اُن ہی کی طرح معصوم ہو تے ہیں ہنسنا ،کھیلنا ،رنگ بھر نا ، سوالات کرنا،تتلیوں کے پیچھے بھاگنایہ سب ہی ان کی اصل زندگی ہو تی ہیں لیکن ہمارے معاشر ے میں بہت سے ایسے بد نصیب بچے بھی ہیں جن کے اپنے ہی والدین اُن کے سارے خوابوں کو توڑنے کا سبب بنتے ہیں جن خوبصورت ہا تھوں میں کتا بیں قلم اور کھلونے ہو نے چاہئے تھے اُن معصوم ہاتھوں میں حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے کچرے کا تھیلا اور اوزار وغیرہ ہو تے ہیں یا پھر وہ ہاتھ کسی کے آگے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں ایسے بچے اپنی زندگی بہت ہی مشکل حالات میں گزار رہے ہوتے ہیں اُن کے چہرے کی معصومیت کے ساتھ ساتھ ہا تھوں کی نر می بھی ختم ہو جاتی ہے اور قلم پکڑنے والے ہاتھ سخت ہو جاتے ہیں اُن معصوموں سے اُن کے خواب چھین کرانہیں پیسے کما نے کیلئے اور محنت مزدوری میں لگا دیا جا تا ہے ابھی حال ہی میں ایک خبر نظرسے گزری کہ اورنگی ٹا ؤن میں نشے کے عادی والدنے اپنے بچوں کی کفالت سے انکار کر دیا ہم نے اپنے صحافی دوست زوہیب خان کے ساتھ واقعہ کی حقیقت جاننے کیلئے اورنگی ٹا ؤن جانے کا فیصلہ کیا اورہم دونوں پیر آباد تھانے کی محمد پو رپو لس چو کی پہنچے اور معلوم کرنے پر چوکی انچارج نے بتا یا کہ یہ واقعہ اورنگی ٹا ؤن کے علاقے فرید کالونی میں پیش آیاجہاں ایک کچراکنڈی میں 7سے9سال کی عمر کے 3بچے زبیر ،فاہر اور صدیقی سوتے ہو ئے ملے تھے ،فرید کالونی کے رہائشی شمال نے بچوں کو نیند سے جگا یا اور اپنے گھر لے جاکر کھانا کھلایا ،شمال نے سارادن بچوں سے والدین کا پتہ پوچھا مگر بچے گھر جانے پر رضامند نہیں تھے تو اس کے پڑوسی نے بچوں کو پو لیس کے حوالے کر دیا ،چوکی انچارج کا کہناتھا کہ بچو ں نے بتایا کہ ان کے والدین ان سے روزانہ بھیک منگواتے ہیں اور روز کے 300روپے لانے کا کہتے ہیں اور اگر وہ 300روپے جمع نہ کرپائیں توان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ،ایک دن کم پیسے لانے پر بچوں کو گھر سے باہر نکال دیا تھا جس کے باعث انھیں رات کچراکنڈی میں گزارنی پڑی،اس دفعہ بچے 3دن سے 300روپے جمع نہیں کر سکے تھے اور والدین کی مار پیٹ سے خو فزدہ ہو کر رات کو کچراکنڈی میں ہی سو گئے تھے ،زبیر اور فاہر دونوں سگے بھائی ہیں جن کے والد نشے کا عادی ہیں جبکہ صدیق ان کا دوست ہے جس کا والد رکشہ چلاتا ہے ،بچوں کے چوکی آنے کے بعد ہی محمد پور چوکی کے انٹیلی جنس اہلکار وں نے فوری طور پر بچوں کے والدین اور ان کے گھر کا سراغ لگا یا جو اورنگی ٹاؤن اسلامیہ کالونی کے رہائشی تھے جب پولیس اہلکار ان بچوں کے گھر پہنچے تو زبیر اور فاہر کی والدہ کاکہنا تھا کہ اگر بچوں کو آناہو گا تو خود آجائیں گے،یہ المیہ ہے ہمارے معاشرے کاماں باپ ہی اپنے بچوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اپنی ہی اولاد کو پالنے سے انکاری ہے آخر ایسا کیوں ہے ؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں،اگر ہم بچوں کو پال ہی نہیں سکتے تو پید اہی کیوں کرتے ہیں ؟؟

Indifference For Social Apathy

Indifference For Social Apathy

ایسے ہی والدین معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بنتے ہیں جو بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرتے اور اسطرح یہ بچے غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں جسم فروشی ، گداگری اور منشیات بیچنے والے گروہ ان بچوں کا استعمال کرتے ہیں اس وقت پاکستان انسانی اسمگلنگ میں چوتھے نمبر پرہے اس میں بڑی تعداد بچوں اور لڑکیوں کی ہے زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو خود ہی بیچتے ہیں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ پاکستان میں جاری حالیہ آپریشن بھی ہے جہاں دوران آپریشن مارے جانے والے لوگوں کے بچے اور بیگمات در بدر ہو جاتے ہیں اور وہ گزر بسر کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں یا پھر انسانی اسمگلنگ کا شکار بن جاتے ہیں ان سب کے سدباب کیلئے ہما رے معاشرے میں بہت سے مخیرحضرات اور این جی اوز کام کر رہی ہیں یہ سب ملک سے غر بت ختم کر نے کیلئے کو شاں ضرور ہیں لیکن غربت کی لکیرکے نیچے 40فیصد زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آرہی ،اسکی وجہ یہ ہے کہ جو لو گ ٹیکس دیتے ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم ٹیکس کیوں دے رہے ہیں؟؟جبکہ پچھلے دنوں ایک خبر بڑی چر چا میں رہی کہ نواز فیملی کی سیکورٹی کیلئے ایک فورس بنا ئی جارہی ہے جس کا بجٹ سوارب کے قریب ہو گا کیا عوام حکومتی فیملی کے تحفظ کیلئے ٹیکس دے یا اپنے بچے کو تحفظ کیلئے؟؟عوام کا فرض ہے کہ وہ ٹیکس دے لیکن کیا حکو مت کا فر ض نہیں ہے کہ وہ اس ٹیکس کا صحیح استعمال کر ے ؟؟جس سے عوام کو براہ راست ریلیف ملے ۔،دوسری طرف جدیدملائشیا کے بانی مہاتیر محمد کی حکمت عملی کو دیکھئے 1990میں ملائشیا کے 30 فیصد نوجوان بے روزگار تھے لیکن ان کے حکمرانوں نے اپنی توجہ تین بنیادی کاموں میں لگادی جس میں تعلیم،صحت اور روزگارشامل تھے اور اپنی جی ڈی پی کا 25فیصد حصہ ان تینوں مقاصد پر صرف کرنا شروع کردیا ،پھر دنیا نے وہ دن بھی دیکھا جب ان کی یہ حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور آج ملائیشیاء 30لاکھ سے ذائدغیرملکیوں کو اپنے ملک میں روزگار فراہم کر رہا ہے لیکن ہماری حکو مت کہتی ہے اپنے دیئے ہوئے ٹیکس کا حساب ہم سے مت لیں ۔ہما ری مر ضی ہے کہ میٹرو بنا ئیں فلائی اوور بنا ئیں یا پھر وزیروں کے اترنے کیلئے ہیلی پیڈ ،ہم سے یہ مت پو چھیں کہ ہم عوام کو اچھی تعلیم ، سیکیورٹی اور ہسپتا لو ں میں مر یضوں کو سہو لیات فراہم کر رہے ہیں یا نہیں،ہم سیلا ب کو روکنے کیلئے ا انتظا مات کر رہے ہیں ڈیم بنارہے ہیں یا نہیں، پرائیوٹ اسکولز بند کر کے سرکاری طور پر مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں یا نہیں ۔حکومت کا کام صرف و صرف ٹیکس لینا ہے اس ملک میں تو ایک فقیر بھی ٹیکس دیتا ہے اور دنیا میں آنے والا بچہ ہسپتا ل کے بلز ،پمپرز اور دودھ کے ڈبوں پر ٹیکس دے رہا ہو تا ہے حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچے یا گھر سے نکال دے ضرورت اس امر کی ہیکہ حکومت ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم سے غریبوں کیلئے ایسے منصوبے بنائے جن سے وہ برسرروزگار ہو سکے ہم یہ نہیں کہتے کہ بے روزگار ی الاؤنس دیا جائے بس اتنی سی گزارش ہیکہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم غریبوں پر ہی لگائی جائے اور اسطرح کے منصوبے بنائے جائے جن سے براہ راست فائدہ غریبوں کو ہو تا کہ اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر غریب اپنے بچوں کو گھر سے نکال رہا ہو اور اس کی ذمہ داری قبو ل کرنے کو بھی تیار نہ ہو۔۔۔اب بھی وقت ہے ۔۔۔
مزمل احمد فیروزی
ایم اے انگلش
ایم اے سوشیالوجی
muzahmed313@gmail.com
0321-3535250

Muzammil Ahmed Ferozi

Muzammil Ahmed Ferozi