تحریر: طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم )
پاکستان میں وہ چیز جو بالکل ناپید ہے وہ مثا لی نظامِ حکومت ہے۔ہمارے ہاں ایسے سیاستدانوں کی بھر مار ہے جن کا سیاست سے دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے وہ سیاست کے بادشاہ گر بنے ہوئے ہیں ۔میاں محمد نواز شریف ، عمران خان اور آصف علی زرداری جو پا کستا ن کی تین اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین ہیں ان کا تعلق سیاست سے نہیں تھا بلکہ ان میں سے ایک صنعتکار ہے دوسرا کرکٹر ہے جبکہ تیسرا ایک وڈ یر ہ ہے اور ان تینوں شخصیات کی معلومات اپنے اپنے شعبوں تک محدود ہیں جس کی وجہ سے انھیں کسی مدبر سیاست دان کا مقام عطا نہیں کیا جا سکتا شائد یہی وجہ ہے کہ ان کی کم علمی کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ تینوں شخصیات حالات کی بے رحمی کی وجہ سے سیاست میں وارد ہوئیں اور ملک کے اہم فیصلوں کی حقدار ٹھہریں ۔میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں لیکن جو شخص آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر تقاریر کی ریہرسل کرتا ہو اور جس کی سیاسی تربیت اس کی اپنی بیوی کرتی ہو اس کی ذہنی استعداد کے معیار کو جانچنا چنداں دشوار نہیں ہوتا ۔ایک گھریلو بیوی جو کہ خود بھی سیاست کی ابجد سے واقف نہ ہو اس کی تربیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا تیار کرد شاہکار کتنی فہم و فراست کا حامل ہو گا۔
موصوف کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انھیں اکثرو بیشتر بہت سی باتوں کی سمجھ بھی نہیں آتی لیکن جب سمجھ آتی ہے تو اس بات پر ڈٹ جاتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کے اس کے نتائج قوم کو کس سمت میں لے جا ئیں گئے۔ سیاست ایک ہمہ وقتی پیشہ ہے جو انتہائی گہرا اور دقیق ہے۔اس کی تہہ تک پہنچنا عام انسانوں کے بس میں نہیں ہوتا۔اپنی زندگی کے ابتدائی سال اس شعبے کی نذر کرنے والے افراد ہی قوموں کی قیادت کے اہل سمجھے جاتے ہیں ۔پکڑ دھکڑ سے سیاست میں گھسیٹے گئے لوگ سیاسی نظام کی افادیت اور اس کے ثمرات کو قوم میں منتقل کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں لہذا قوم کی ترقی اور اس کی خوشخالی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا کیونکہ ایسے افراد ویژن اور بالغ نظری سے خالی ہوتے ہیں۔
قائدِاعظم محمد علی جناح،مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو ،علی برادران ، ذولفقار علی بھٹو، خان عبدالغفارخان اور محترمہ بے نظیر بھٹو ایسے انسان تھے ،سیاست جن کی گھٹی میں تھی اور جھنوں نے سیاست کی خاطر اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی اور شائد یہی وجہ ہے کہ ان کی موت کے بعد بھی سیاست پر ان کی چھاپ محسوس کی جاتی ہے۔وصیت سے کسی جماعت کا قائد بن جانا تو آسان ہے لیکن ملک کو کوئی واضح سمت عطا کرنادوسری بات ہے۔ مفاہمتی سیاست کے نام پر اکثر سیاستدانوں کو احتساب سے مبرا قرار دے کر آئینی مدت پوری کر لینے سے اقوام ترقی نہیں کرتیں بلکہ اقوام عدل و انصاف ، امانت ، دیانت اور جوابدہی کے نظام کو روبعمل لانے سے ترقی کرتی ہیں۔کرپشن، لوٹ مار،چوری، بد دیانتی اوراقربا ء پروری اقوام کو تباہی کے دھانے تک لے جاتی ہیں اور پاکستانی سیاستدان سوائے ان اعمال کے اور کچھ بھی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ایک ہی خاندان کے افراد عقلِ کل کے مالک ٹھہریں اور سارے فیصلے انہی کی ذات کے گرد گھومتے نظر آئیں تو پھر با صلاحیت اور اہلِ نظر افراد محض تماشائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے جس میں دھشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی اور کرپشن سرفہر ست ہیں۔ملک پر چونکہ ایک خاص مافیا کا قبضہ ہے لہذا یہ تما مسائل جن کا میں نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے ان کا اس مخصوص طبقے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے کیونکہ دولت ان کے گھر کی لونڈی ہے اور انھیں عام آدمی کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔
انھیں دولت بنا نے اور اس میں اضافے کے علاوہ کسی دوسرے مسئلے پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ عام آدمی کے مسائل کو ناحل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی اپنی دنیا ہے اور و ہ اس دنیا سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔پھلے کئی سالوں سے پاکستانی عوام پانی ، بجلی اور گیس کو ترستے چلے آ رہے ہیں لیکن اب پچھلے کئی دنوں عوام کو پٹرول کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہر پٹرول سٹیشن کے سامنے لمبی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔موجودہ دور میں پٹرول کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پٹرول کا استعمال زندگی کی جزوِ لا ینفک ہے۔ کسی کو دفتر جانا ہو،کسی سے ملاقات کیلئے پہنچنا ہو یا بچوں کو سکول چھوڑنا ہو ہر جگہ پٹرول کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن پٹرول ہے کہ پاکستان سے غائب ہے۔حالت یہ ہے کہ اس وقت ہر شخص گھر میں محصور ہو کر رہ گیا ہے لیکن حکمران عمرے میں مشغول ہیں۔انھیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی عمرے سے زیادہ اہم ہے۔بچے بوڑھے جوان اور خوا تین کے ہاتھوں میں ڈبے اور بولتیں پاکستانی قوم کی زبوں حالی کی کہانی سنا رہی ہیں۔عوام کی اس سے زیادہ تذلیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں سرِ عام پٹرول کی خاطر سڑکوں پر کھڑا کر دیا جائے۔ عوام غصے سے بھرے پڑے ہیں اور ذمہ داروں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اس طرح کا کوئی رواج نہیں ہے۔ مہذب معاشروں میں اگر کوئی خطاوار ہوتا ہے تو وہ رضا کارانہ طور پرمستعفی ہو جاتا ہے تا کہ اسے اس کے اعمال کی سزا دی جا سکے لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی روائت مضبوط نہیں ہو سکی۔ہمارے ہاں لمیٹیڈ فیملی کا تصور ہے لہذا رشتہ داروں کی فوج ظفر موج ہر سو موجود ہوتی ہے۔اب کسی میں اتنی جرات کہاں کہ وہ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے۔
وزیرِ اعظم کی کابینہ میں بھی ان کے سمدھی اور کئی دوسرے رشتہ دار بیٹھے ہوئے ہیں اور وہی اس بحران کی حقیقی وجہ ہیں لیکن ان میں سے کسی نے استعفی نہیں دیا بلکہ اوگرا ہے چند عہدیدروں کو فارغ کر کے کام چلا لیا گیا ہے حا لانکہ اوگرا کا بنیادی کا م تیل و گیس کی قیمتوں کا تعین کرنا ہوتا ہے ۔ پٹرول خریدنا اور اس کا ذخیرہ کرنا ان کے فرائض میں شامل نہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں جرم کو نہیں بلکہ اس گردن کو دیکھا جاتا ے جس میں رسہ پورا آ جائے اور اب رسہ اوگراہ کے عہدیداروں کی گردن میں فٹ ہو گیا ہے لہذا اس بحران کے وہی ذمہ دار ہیں ۔ہماری قیات کو یہ نہیں بھولنا چائیے کہ ہمارے پڑوس میں ہمارا یک ہمسایہ رہتا ہے جسے بھارت کہتے ہیں اور جو پاکستان کی تخلیق کے وقت سے اسے مٹانے کے در پہ ہے۔وہ آجکل موج و مستی میں ہماری سرحدوں پر اکثرو بیشتر چھیڑ خوانی کرتارہتا ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس پٹرول نہیں ہے۔اب اگر ایسے وقت میں اس نے مکمل جنگ کا آغاز کر دیا تو پھر قوم کو بتایا جائے کہ اس ملک کا دفاع کیسے ہو گا؟یہ انتہائی سنگین صورتِ حال ہے جس کا علاج کیاجانا انتہائی ضروری ہے۔ہم اسی طرح پہلے بھی اپنا آدھا ملک گنوا چکے ہیں لیکن تاریخ سے ہم نے پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ہماری قیادت کے ذہنوں میں ہوسِ زر کی خواہشیں کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں،ان کے سر پر دولت بنانے کو جنون سوار ہے اور اس کیلئے انھیں کچھ بھی یاد نہیں ہے۔
وہ بھول چکے ہیں کہ اس ملک کی بقا اور حفا ظت ان کی اولین ذمہ داری ہے ۔موجودہ پٹرول کے بحران کے پیچھے کئی کہانیاں جنم لے چکی ہیں جن کا محور دولت بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔اپوزیشن کا کام حکومتی اعمال کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں تو اپوزیشن حکومت سے بھی زیادہ حکومت کی نمک خوار بن چکی ہے۔وہ حکومت کو عوام کش پالیسیاں بنوانے اور عوام کا استحصال کروانے میں پیش پیش ہے ۔ہمارے ہاں اپو زیشن کا واحد مقصد حکومت کو تحفظ دینا رہ گیا ہے ۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ کہ اپوزیشن عوام کو متحرک کرتی اور حکومت کی بے حسی پر اس کے خلاف عوام کو متحد کر کے زبردست احتجاج کرتی لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن جماعت کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے کوئی اخباری بیان تک دینا بھی گوارہ نہیں کیا ۔وہ آج کل لندن میں محوِ استراحت ہیں ۔جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ حکومت کے خلاف واحد اپوزیشن ہونے کا تاثر دیتے رہتے ہیں لیکن اس خاص مسئلے پر ان کا احتجاج بھی برائے نام ہے۔وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ عمرہ روانہ ہو چکے ہیں اور عوام سڑکوں پر بولتیں اٹھائے پٹرول کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ کوئی بے حسی سی بے حسی ہے۔اس طرح کا بے حس منظر صرف پاکستان میں ہی دیکھا جا سکتا ہے جہاں عوام کو پٹرول سے محروم کر کے ان کو ذلیل و خوار کیا جا تا ہے۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم )