سندھ حکومت نے نیب آرڈیننس کے خاتمے سے متعلق عدالتی حکم پر نظرثانی کی درخواست ہائی کورٹ میں جمع کرادی۔
حکومت سندھ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھومرو نے جمع کرائی جس میں عدالتی حکم پر نظرثانی کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 69 اور 127 پارلیمانی کارروائی کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس لئے عدالت سندھ اسمبلی کی کارروائی کی تفصیلات طلب نہیں کرسکتی۔ خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے 16 اگست کو سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ جن اراکین سندھ اسمبلی کے خلاف نیب میں انکوائری جاری ہے ان کی فہرست پیش کی جائے اور ان اراکین اسمبلی کی بھی فہرست فراہم کی جائے جنہوں نے بل کی منظوری میں ووٹ دیا۔
عدالت نے قومی احتساب بیورو کو اراکین سندھ اسمبلی اور بیورو کریٹس کے خلاف انکوائری جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتی فیصلے تک نیب انکوائری جاری رکھےلیکن حتمی رپورٹ پیش نہ کرے۔ سندھ کی بیوروکریسی اور کئی سیاستدان نیب کے شکنجے میں :نیب نے گزشتہ سال 100 سے زائد اور رواں سال اب تک 1200 سے زائد ریفرنسز فائل کیے جاچکے ہیں۔ذرائع کے مطابق سندھ کے 60 سے زائد بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے خلاف نیب کی انکوائری جاری ہے جن میں سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق، سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن، سابق چیف سیکرٹری صدیق میمن اور اعجاز چوہدری کے خلاف نیب کی تحقیقات جاری ہے۔
نیب کے شکنجے میں آنے والوں میں وزیر قانون ضیاءلنجار، رکن اسمبلی فقیر داد کھوسو، شرمیلا فاروقی، سابق ممبر بورڈ آف ریونیو لینڈ شازر شمعون اور سیکرٹری بدر جمیل کے خلاف بھی نیب کی تحقیقات جاری ہے۔ سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر، سابق چیرمین انٹر بورڈ انوار زئی کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے جب کہ ایم این اے میر منور تالپر اور ایم پی اے علی مردان شاہ کے خلاف نیب انکوائریز بند ہوچکیں ہیں۔ خیال رہے کہ وزیر قانون سندھ ضیا لنجار نے 3 جولائی کو “نیب آرڈیننس 1999 سندھ” منسوخی کا بل اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے حکومت نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود منظور کرلیا تھا۔ یاد رہے کہ نیب آرڈیننس منسوخی بل کی منظوری سے نیب کا سندھ میں صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں اور افسران کے خلاف کارروائی کا اختیار ختم ہوجائے گا جب کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سندھ میں صرف وفاقی اداروں کے حکام کے خلاف کارروائی کا مجاز ہوگا۔