تحریر:مسز جمشید خاکوانی
پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔اور لاٹھی پہلے چلتی ہے قانونی رنگ سیچویشن دیکھنے کے بعد دیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرف جنگل کا قانون رائج ہے ۔اوپر بیٹھے لوگ یا تو بے خبر ہیں یا تماشہ دیکھ رہے ہیں کہا جاتا ہے نون لیگ کے ہر دور میں ملک پولیس سٹیٹ بن جاتا ہے جب پ تمام عہدے اپنے پاس ہی رکھ کر اختیارات نچلی سطع پر منتقل کر دیتے ہیں تو لامحالہ اس کا نتیجہ یہی نکلنا ہے ۔جرم اور ظلم تو عام ہو گا مگر زمہ داری کوئی نہیں لے گا اور بدنامی ساری حکومت کے حصے میں آئے گی۔
ہمارے ہاں قانون کا استحصال کیسے کیا جاتا ہے پہلے ایک واقعہ سن لیں ۔عتیق بیگ نامی ایک نوجوان اس واقعے کا راوی ہے وہ لکھتا ہے کہ میرے والد صاحب اکثر یہ واقعہ سنایا کرتے ہیں ۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا کہ ان دنوں عارف والا شہر میں پولیس کی طرف سے کھلی کچحری کا اہتمام کیا گیا ۔تو میں بھی اپنے ایک دوست کے کام کی غرض سے اس کے ساتھ وہاں جا پہنچا وہاں پر ایک بزرگ عورت لوگوں سے پوچھ رہی تھی کہ جو بڑا پولیس والا آج یہاں کچحری لگانے کے لیئے آیا ہے وہ کہاں بیٹھا ہے ؟ لوگوں نے اسے بتلایا ماں جی وہ سامنے میز کے پیچھے بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا پولیس والا ہی اس کچحری کا کرتا دھرتا ہے ۔اس عورت کے ساتھ رضاکار بھی تھا جس کے ہاتھ میں اس عورت کی طرف سے لکھی گئی درخواست تھی۔
ابو کہنے لگے کہ میں نے اس عورت کو بیٹھنے کے لیئے اپنی کرسی دی اور پوچھا ماں جی خیریت سے آئی ہیں ؟تو اس عورت نے رضاکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بیٹا میری درخواست جو اس رضاکار کے ہاتھ میں ہے اس کی شنوائی کے لیئے آئی ہوں در در ٹھوکریں کھا رہی ہوں مگر کہیں شنوائی نہیں ہوتی ۔یہ رضاکار میرا تفتیشی ہے ۔بیٹا میرا ایک کام کرو اس رضاکار سے یہ درخواست لے کر وہ سامنے بیٹھے بڑے پولیس والے تک پہنچا دو جب باری آئے گی تو بھگت لونگی ۔ابو نے وہ درخواست پکڑی اور روسٹرم کی طرف بڑھے لیکن ابو کہنے لگے عین اسی وقت میں اپنے قدموں پہ جم گیا اور حیران رہ گیا کہ درخواست پر اس وقت کے آمر اور صدر جنرل ضیاالحق کے دستخط اور مہر دونوں موجود تھے
(پاکستان میں صدر سے اوپر کوئی عہدہ نہیں اور جس کے ہاتھ میں وہ درخواست تھی وہ تفتیشی رضاکار تھا اور رضاکار سے نیچے کوئی عہدہ نہیں )ابو نے وہ درخواست واپس رضاکار تک پہنچائی اور واپس آ کر اس عورت سے کہا ۔ماں جی! پ گھر جائیں کیونکہ اس درخواست پر شنوائی یہاں نہیں بلکہ کہیں بھی نہیں ہوگی ہاں البتہ آپ پولیس والوں کو دینے کے لیئے رشوت کا بندوبست کر لیں تو فی لفور کام ہو جائے گا ۔وہ کہنے لگی بیٹا میں تو گائوں سے کئی کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے آئی ہوں لاری کا کرایہ تک نہیں تھا ۔میں پولیس والوں کو خرچہ پانی کہاں سے دوں ؟ابو کہتے ہیں میں تب تک کچحری سے واپس نہیں آیا جب تک اس عورت کی باری نہیں آ گئی اور وہی ہوا جو غریب کے ساتھ ہوتا ہے پاکستان میں۔ وہ بے چاری اپنا سا منہ لے کر بڑبڑاتی ہوئی گھر کو لوٹ گئی اور میرے والد صاحب بہت سارے سوالوں کا بوجھ دل میں لیئے اپنے گھر واپس آگئے ۔بھلا جس ملک کی انتظامیہ اپنے ملک کے صدر (پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ) تک پہنچی ہوئی درخواست کا یہ حال کر سکتی ہے کہ اس کی تفتیش کے لیئے رضاکار (پاکستان میں سب سے چھوٹا عہدہ )مقرر کر دے وہاں پھر سب سے بڑا طاقت والا کون ہوا؟
حالانکہ یہ اس دور کی بات ہے جب ایک ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا وہ بھی سرکار کے انڈر ۔جبکہ ج یہ حال ہے کہ میڈیا ایک فصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے ۔لال مسجد سانحے میں آپریشن کے لیئے راہ ہموار کرنے کے بعدمیڈیا نے ایسا ” یو ٹرن ” لیا کہ پاکستان کی تاریخ ہی بدل گئی آج وہی اینکرز ٹی وی چینلوں پر بیٹھے اعتراف کرتے ہیں کہ انہی چینلوں نے دہشت گردوں کو ہیرو بنا کے پیش کیا ۔انکی اپنی اپنی وفاداریاں تھیں ،مفادات تھے ۔لال مسجد کے بارے عرفان قریشی صاحب کے لکھے کالموں کا بہت چرچا ہے جس میں انہوں نے مبالغا آرائی بلکہ جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے لوگوں کو مس گائیڈ کیا اور بعد میں اس کے صلے میں میاں نواز شریف کے خصوصی مشیر کا درجہ پایا۔حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں میڈیا نے بہت اہم رول ادا کیا اور میں سمجھتی ہوں آوے کا آوہ بگاڑنے میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔
کچھ باضمیر لوگ صرف تماشائی بنے رہے چونکہ ہمارا عدالتی نظام اور حکومتی رٹ دونوں ہی فیل ہو چکے ہیں تو ان دھشت گردوں کو لگام دینے کے لیئے کوئی نہ کوئی قدم تو لینا ہوگا سیاسی وابستگیوں اور سیاسی بھرتیوں نے ہر ادارہ تباہ کر دیا ہے قومی سوچ ختم ہو چکی ہے ،مملکت کا ”پلر” کہلانے والے چار ستونوں میں سے ٣ ستون تو مکمل تباہی کا شکار ہیں ۔ایک ادارہ چند غلطیوں کے علاوہ ابھی بھی ملک کو سہارہ دیئے ھوئے ہے جس کو آرمی کہتے ہیں ۔آرمی انٹیلی جنس کو تنقید کا نشانہ بنانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سویلین کے انڈر انٹیلی جنس ادارے کو آرڈینیشن میں نہیں بلکہ اپنے اپنے باس کو جواب دہ ہیں ۔ہر ادارے میں اقرباپروری اور نوازنے کے عمل نے ان کو ذاتی ملازم کی حیثیت دے دی ہے ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں قومی سطع پر دور رس نتائج کے حامل فیصلے نہیں کیئے جاتے۔ نہ ہی کچھ لوگوں کی پھانسیوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کیئے جا سکتے ہیں
طاقت کو تقسیم کرنے سے مزید بربادی ہوگی ابھی یہ گند صاف کرنے اور ملک کو ایک سمت دینے کے لیئے کسی ایک ادارے کو بالا دست کرنا ہوگا اور یہ کام تنہا فوج بھی تب ہی کر سکتی ہے جب اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں ۔ورنہ لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ حکومت سارے اچھے کام(پیسہ کمانے ) کے خود کرنا چاہتی ہے اور سارے برے کام فوج کے کھاتے میں ڈالنا چاہتی ہے ۔سوال تو یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں سے سیاست دان اور مذھبی جماعتیں کیوں خوف زدہ ہیں؟جنرل راحیل چاہتے تو مارشل لا لگا کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے لیکن انہوں نے سیاستدانوں کو ساتھ چلنے کا حق دیا اعتماد میں لیا کیا حکومت نہیں چاہتی کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو ؟
وزیراعظم نے صاف کہا ہم محض اپنے ٹرائل کے ڈر سے شہید بچوں کا خون رائگاں نہیں جانے دیں گے یہ بھی مسٹر زرداری کے خدشات کا جواب تھا ۔ورنہ یہ وقت ہچر مچر چونکہ چنانچہ کا نہیں ہے ،پیرس میں میگزین کے دفتر پر ہونے والے حملے میں سترہ لوگوں کی ہلاکت پر پورا پیرس سڑکوں پہ امڈ آیا اور چالیس ملکوں کے سربراہان اظہار یکجحتی کو پہنچ گئے پوری دنیا سے اظہار یکجحتی کے پیغامات آ رہے ہیںہمارا مستقبل لوٹ لیا گیا اور یہاں سب اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہیں وکلاء اپنا کالا کوٹ بچا رہے ہیں تو جج اپنی کرسی ،متحسب ادارے خود اپنے احتساب سے خوفزدہ ہیں تو سہولت کاروں کو اپنی جان کی پڑی ہے ۔صاف ظاہر ہے ساری دال ہی کالی ہے یہ نہیں سوچتے اپنا مارے تو پھر بھی چھائوں میں ڈالتا ہے ساری دنیا ہمیں سزا دینے پر تل گئی تو کہا ں جائو گے ؟
تیس پینتیس سال مقدموں کو لٹکا کر سائلوں کی کھال اتارنے والے وکیلوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہے کہ فوری انصاف ملنے لگا تو انکی دکانداری ختم ہو جائے گی (بڑی مشکل سے ہوا تھا افتخار کانا پیدا)امریکہ ہو یا برطانیہ کبھی کسی نے سنا کہ ایک حکومت جاتے ہی سب کچھ لپیٹ دیا گیا ہو وہ اپنے ادارے تباہ نہیں کرتے ،پالیسیوں میں تسلسل رکھتے ہیں ،کسی حکومت کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔نہ اداروں میں کرپٹ ترین بندے چن کر لگائے جاتے ہیں ،ماہر ترین ہاتھوں میں معیشت دی جاتی ہے جیل اور برے دن کے ساتھی نہیں نوازے جاتے ۔۔۔پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ بہت خطرناک ہے ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ہماری معیشت ترقی سے ہمکنار ہو عالمی سطع پر تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ایک بار پھر اٹھا سکتی ہے
لیکن ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو یہ گوارہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں سزائے موت کی بحالی پر شور مچا رہے ہیں حالانکہ اپنے ملکوں میں وہ اشارہ یا قطار توڑنے کو بھی قانون شکنی قرار دیتے ہیں ۔ہمارے ملک میں اس قسم کی مداخلت کیا معنی رکھتی ہے ؟پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے سے قبل بھی یورپی سفارت کار تجارتی تنظیموں کے ذرئعیے یہ دبائو ڈالتے رہیکہ پاکستان یہ درجہ حاصل کرنے کے لیئے سزائے موت کے قانون پر پابندی برقرار رکھے جبکہ بنگلہ دیش کو بھی یہ درجہ دیا گیا لیکن اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی مگر اس معاملے میں پاکستان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی کیوں؟حالانکہ پاکستان زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کو قانونی شکنجہ مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
اب بھی پاکستان پر دبائو دیا جا رہا ہے لیکن پاکستانی برامد کندگان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی خاطر ہر نقصان برداشت کرنے کو تیار ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ایسی شرط کو نہیں مانیں گے جن سے ان کا ملک غیر محفوظ ہو اور یہ سراسر نا انصافی ہے جسے جسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔۔۔یقیناٍ ہم ایک فیصلہ کن موڑ پہ کھڑے ہیں جہاں طاقت کا قانون ہی دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا سکتا ہے ۔ڈھیلی ڈھالی سیاست اور ڈھیلا ڈھالا قانون لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے سمجھایا نہیں جا سکتا ۔یہ پوری قوم کی آزمائش ہے اور ہمیں اس میں سرخرو ہونا ہے اس میں ہر ایک کو اپنے مفاد سے بالاتر ہو کر صرف اپنی نسلوں کے لیئے سوچنا ہوگا ہم پھولوں کے جنازے کب تک اپنے کاندھوں پہ اٹھائیں گے ۔کتنے دن اسکول بند رکھیں گے؟کب تک پولیوزدہ بچوں کو دیکھ کر روتے رہیں گے کیا اٹھارہ کروڑ عوام اتنے بے وقعت ہیں کہ اپنے بچوں کا دفاع نہ کر سکیں ؟تو پھر دنیا ہمیں یونہی کتے بلیوں سے بھی کم تر درجے پہ رکھے گی!
تحریر:مسز جمشید خاکوانی