تحریر:عاطف گل(تھائی لینڈ)
پاکستان میں بڑھتی ہوئی دردناک دہشت گردی نے تمام سیاسی وعسکری قیادت کو ایک ہی جگہ پر اکٹھا کردیا ہے جو کہ انتہائی اطمینان بخش بات ہے اور جس طرح پاک فوج کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں سمیت دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع کیا گیا ہے وہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کا سبب بنے گی اس طرح ضرب عضب کی کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
سزائے موت کے قوانین واطلاق کی بات کریں تو چین میں گزشتہ سال2400افراد کو سزائے موت دی گئی۔عالمی میڈیارپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے امریکی ادارے ”دوئی ہوا”کا کہنا ہے کہ2012ء کی نسبت میں یہ تعداد20فیصد کم ہے۔تاہم اس کمی کے باوجود سزائے موت پر عمل درآمد کے حوالے سے چین دنیابھر میں ابھی بھی سرفہرست ہے
عالمی رینکنگ میں چین کا نمبر1 ہے۔اس تنظیم نے بتایا ہے کہ یہ رپورٹ عدالتی افسران نے جاری کی ہے مگر ان کا نام ظاہر نہ کرنے کی یقین دہانی کروانے پر بتایا گیا ہے کہ عالمی انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کا دبائو بھی ہے کہ سزائے موت کی سزا میں ترمیم، کمی یا ناگزیر صورتحال میں مجوزہ سزا کے اطلاق پر قانون سازی کی جائے ،یہ بات بھی نہایت غورطلب ہے کہ متعدد عالمی ادارے سزائے موت کے قانون کو عمرقید میں تبدیل کروانے کے لئے بھی متحرک ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی کئی ممالک کی طرف سے اس حوالے سے کی جانے والی کوششیں ریکارڈ پر ہیں۔
پاکستان میں سزائے موت کی سنگین سزاقانون میںنہ صرف موجود ہے بلکہ اب تک سینکڑوں مقدمات کے فیصلوں کے نتیجے میں قیدیوں کو سزائے موت کی سزا سنائی جاچکی ہے اوران پر عمل درآمد بھی کیاجاچکا ہے البتہ سزائے موت کے حوالے سے ہزاروں اپیل کی درخواستیں بھی معزز عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔پاکستان میں جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے وہاں ماتحت عدالتوں کے بعد اعلیٰ ترین عدلیہ میں بھی اگر سزائے موت کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سامنے آتا ہے
تو”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے صدرریاستی سربراہ کی حیثیت سے مفاد عامہ میں سزائے موت کے حامل قیدی اوراس کے خاندان کی طرف سے کی جانے والی تحریری درخواست اپیل برائے معافی سزائے موت کوقبول کرنے کااختیار رکھتے ہوئے مجوزہ سزا کو معاف کرنے یا مختلف سزائوں میں تبدیل کرنے کا صوابدیدی طور پرحق رکھتا ہے اور ماضی میں ایسی لاتعداد مثالیں ہیں جب صدر مملکت سزائے موت کے قیدیوں کو معاف کرچکے ہیں۔اب صدر مملکت کی طرف سے حالیہ اقدامات کے تحت سزائے موت کے آرڈیننس کے مطابق پھانسیوں کے مجرمان کی کسی بھی طرح کی معافی کی اپیلیں مسترد کرکے ان کی سزائے موت فیصلوں کو فوری عمل درآمد کا بھی فیصلہ کیا گیا اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے
اب تک دوہفتوں میں درجنوں مجرمان کو سزائے موت دی جاچکی ہے ،بعض حلقوں ٹھوس دلائل دیتے ہیں کہ جب سزائے موت کا قانون مرتب ونافذکیاگیا تواس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ قتل،دہشت گردی،زنابالجبر،ڈکیتی جیسے ملزمان کو ایسی بڑی سے بڑی اور کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ معاشرے کے تمام عناصر اس سزا سے عبرت حاصل کریں اورسنگین جرائم سے بازرہیں۔
مگر یہ بات بھی بڑی کثرت سے سامنے آئی کہ بااثر حلقے اپنے ذاتی جھگڑوں وجھوٹی اناپرستی کے لئے بھی اپنے مخالفین کوایسی سزائوں میں پھنساتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ جائیدادورشتوں کے حصول کے لئے بھی خاندانی افراد ووڈیروں کے ملازمین اس سزا کی بھینٹ چڑھتے ہیں اور یہ تشویشناک سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔اس حوالے سے عدلیہ اور متعلقہ سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری انتہائی اہم بھی ہے اور ان کی کارکردگی حساس کردار کی حامل بھی۔
تحریر:عاطف گل(تھائی لینڈ)