تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
آج میری میز پر 10 اپریل 2016 بروز اتوار کے اخبارات کا انبار موجود ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ جہاں بیشتر اخبارات میں اتوار ایڈیشن کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ” یومِ دستور پاکستان “کی 43ویں سالگرہ کے حوالے سے شائع ہونے والے خصوصی ایڈیشن بھی شامل ہیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف سمیت اسپیکر قومی اسمبلی اور حکومتی اراکین اور صوبائی وزرائے اعلیٰ اور مقامی حکومتوں کے ذمہ داران کے خصوصی پیغامات بھی شائع ہوئے ہیں تو وہیں اخبارات میں یہ خبر بھی ہے کہ دستورِ پاکستان کی تدوین کی 43ویں سالگرہ تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے 1973 ءکے آئین کے بانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے یومِ آئین منایا جائے گا۔
الغرض یہ کہ گزشتہ دِنوں برسراقتدار ن لیگ کی تیسری اور آخری بارآنے والی حکومت اور ایوان میں اپوزیشن سمیت مُلک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سرزمینِ پاکستان کے طول و ارض میں 10اپریل 2016کو مُلک کا43واں یومِ دستور منایا جبکہ اِس دن کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے جہاں پرنٹ میڈیا نے(یعنی کہ حکومت نے جِسے چاہا اُن بڑے چھوٹے اخبارات کو یومِ دستور پر وزیراعظم اور حکومتی وزرا ¾ کے پیغامات کے ساتھ سرکاری خرچ پر رنگین صفحات پر مشتمل جوبڑے بڑے اشتہارات دیئے تھے ) خصوصی ایڈیشن شائع کئے تو وہیں مُلکی سرکاری ٹی وی اور ریڈیوسمیت نجی ٹی وی چینلزنے بھی اِس دن کے حوالے سے اپنی نشریات کا بیشتر حصہ اشتہارات اور پیغامات نشر کرنے میں صرف کیا اور اِس دن کی مناسبت سے بحث و مباحثوں کے خصوصی پروگراموں کا اہتمام بھی کیا۔
یہاں میں اپنے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ ہم 10 اپریل کو یومِ دستور یا یوم ِ آئین پاکستان کیوں مناتے ہیں ؟؟ تو اِس دن کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے بس اتناجان لیجئے کہ اِس دن یعنی کہ 10اپریل1973کو قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد12اپریل1973کو صدارتی منظوری کے بعد دستورِ پاکستان معرضِ وجودمیں آیا،مسودہ سازکمیٹی نے36دِنوں کے عرصے پر محیط48نشتوں میں170گھنٹے بحث کی، اِس تمام کاروائی کے دوران25ممبران کمیٹی میںسے اوسط 18ممبران حاضررہے، کمیٹی نے متفقہ آئین سازی کے لئے ہرممکن کوشش کی “اور یوں ہمارایہ تاریخی دستور جو 1973میںپاس ہوا تب سے آج تک نافذالعمل ہے۔
بہر کیف ،آج جس طرح ہمارے حکمران ، سیاستدا ن ، حکومتی اداروں کے سربراہان ، میڈیا اورعوامِ سمیت سب کے سب جس طرح اپنے قدسے بھی زیادہ اُونچا اُچھل اُچھل کر اور چھلانگیں مارمار کر مُلک میں دستور اور آئین کی پاسداری اور قانون کی بالادستی کی بہت سی باتیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں مگردر حقیقت ایسا نہیں ہے جیسا کہ ہمیں عام طور پر نظر آ رہا ہوتا ہے۔
جبکہ یہاں یہ نکتہ کتنا عجیب اور حیران کُن ہے کہ وطنِ عزیز میں جو حکمران اور سیاستدان(یا وہ کوئی بھی ہو) جتنی آئین و دستور اور قانون کی بالادستی کی باتیں کرتاہے دراصل وہ کہیں نہ کہیںاور کسی نہ کسی طرح سے اُتناہی بڑاآئین (دستور) اور قانون شکن نکلتاہے، کیونکہ آج میرے وطن میںاپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی گھٹی میں ڈوباہواحکمران طبقہ اور مفاد پرست سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربراہاں، سیاستدان اور کارکنان میں سے کوئی بھی دستور کو اُس طرح ماننے اور اِس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے جیسا کہ دستور کی شقیں اِس کی روح کے مطابق ہر خاص و عام کو عمل کرنے کی پابند بناتی ہیں۔
اگرچہ مُلکی دستورکا یہ سفر10اپریل 1973تا10اپریل2016تک43سالوں پر محیط ہے دستور کی تاریخ گواہ ہے کہ اِس دوران مُلک میں جتنے بھی سِول اور آمر حکمران آئے سب ہی نے اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد اور مفادات کے خاطر دستور کا ہی گلاگھونٹاہے،ہنوز ابھی یہی کچھ کسی نہ کسی بہانے فخریہ انداز سے کیا جارہاہے جِسے کوئی روکنے اور ٹوکنے والانہیں ہے، جس سے دیکھوسب دستورِ پاکستان کو ربڑسے بھی زیادہ نرم و ملائم جان کر جس طرح چاہتے ہیں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے موڑلیتے ہیں، آخرایسا خداجانے کب تک ہوتارہے گا؟؟کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے؟؟۔
تاہم10 اپریل 2016 کو یومِ دستورِ پاکستان کے دن کی اہمیت کی مناسب سے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا قومی اخبارات میں قوم کے نام یہ پیغام (جِسے میں وقت کی کمی کے پیشِ نظرانتہائی اختصار سے بیان کرناچاہوں گا) آیا جس میں اُنہوں نے کہا کہ”مجھے اَزحدخوشی ہے کہ میں یومِ دستورکے موقع پر قوم کو مبارکباد پیش کررہاہوں، بیشک یہ دن اُن عظیم لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منایاجاتاہے جن کی انتھک محنت کے نتیجے میں پاکستان کو آئین ملاہمیں اِن پر فخرہے، اَب ہم پر فرض ہوتاہے کہ خصوصاََ مُلک کے جمہوری طور پر منتخب شدہ نمائندوں پر کہ دستور کی بالادستی کو ہم برقراررکھی اور اِس کے جمہوری روح کوبگاڑنے کی تمام تر کوششوں کو نام بنائیں“یہ تووہ پیغام تھا جوہمارے ہردلعزیز اور بزنس مائنڈوزیراعظم میاں نوازشریف نے یومِ دستور پاکستان کے موقع پر قوم کے نام دیاحالانکہ یہ اِن دِنوں پاناماپیپرز لیکس کے آف شور کمپنیوں سے متعلق کئے جانے والے انکشافات کے بعدخود اپوزیشن کی شدیدتنقیدوں کی زد میں ہیںجن سے اپوزیشن کا ایک مگر سب سے اہم اور بڑاپاورفل مطالبہ یہ ہے کہ وزیراعظم پاناما پیپرزلیکس میں اپنی فیملیز سے متعلق کئے جانے والے انکشافات کے بارے میں قوم کے سامنے وضاحت پیش کریں یایہ ایسانہ کرسکیںتو عہدے سے مستعفیٰ ہوجائیں جس سے مُلک میںآئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو گی۔
جبکہ اُدھر یومِ دستورِ پاکستان کے موقع پر سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے ایک اخباری بیان میں قوم اور اپنے پارٹی ورکروں کے نام دینے جانے والے پیغام میں واہ شگاف انداز سے کہاہے کہ” آئین کو پھاڑکر پھینکناقوم کی روح کو قتل کرناہے اور آئین کی بیحرمتی عوام کی بے عزتی کے مترادف ہے،جو لوگ آئین کی بے حرمتی کرتے ہیں اور اِسے پھاڑتے ہیں وہ قوم کے غدارہیں ، ڈکٹیٹروں اور غاصبوں کو ہر صورت سزاملنی چاہیے اور وہ وقت آئے گا جب اِن سب کو سزاملے گی آئین کا پیچھاکرناہوگا“ اُنہوں نے اور ایسی بہت سی جذباتی اور دستورکی مُلک میں بالادستی سے تعلق باتیں کہیں ہیں پھر وہی وقت کی قلت کا معاملہ سامنے آ جاتا ہے۔
جبکہ سابق صدر کے اِس بیان پر میں صرف اتناہی کہوں گاکہ یہ سب کہنے سے قبل کم ازکم ایک بار تو اتناضرور سوچ لیتے کہ اِنہوں نے اپنی سابقہ حکومت کے پانچ سالوں میں کب اور کدھراور کہاں کہاں؟؟ اور کن کن مواقعوںپر مُلکی دستور اور آئین کے کان اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات اورفوائد کے حصول کے خاطر اینٹھیں تھے ؟؟ اِن کے لئے بس انتاہی کہنا کافیہوگا کہ ” سُوپ توسُوپ چھلنی کیا بولے جس میں بہترسوچھید“ ۔ بہرحال، اِدھربرسرِ اقتدار وزیراعظم میاں نواز شریف کو 12اپریل 2016تک اللہ رب العزت جس کے ہاتھ میںہرذی نفس کی جا ن ہے اور جِسے وہ جس طرح سے چاہتاہے عزت دیتاہے اور جس وقت جس طرح سے چاہئے ذلت سے بھی دوچار کر دیتا ہے۔
میرے اور وزیراعظم نوازشریف کے مشترکہ اللہ رب العزت جب اِنہیں ایک خوبصورت موقعہ دے ہی رہا ہے تو وہ اِسے اپنے ہاتھ سے ہرگزمت جانے دیںاُس دن جب یومِ دستورِ پاکستان کے سلسلے میں 12اپریل 2016کو پارلیمنٹ ہاوس کی عمارت پر چراغاں، ریڈیواور ٹی وی پر خصوصی نشریات، منتخب سیاسی قیادت کے پیغامات اور12اپریل کو پرلیمانی جمہوریت کے تصوراور وفاقیت کی افادیت کے حوالے سے خصوصی سیمنار کا انعقاد اور خصوصی پمفلٹ کی اشاعت وغیرہ کا کی اشاعت کے بعد حکومتی سطح پر منانے جانے والے یومِ دستور پاکستان کے پروگراموں کے اختتام کا آخری دن ہو تو اِس دن توبس وزیراعظم نوازشریف پاناماپیپرز لیکس میں اپنے اور اپنے خاندان کے افراد سے متعلق ہونے والے انکشافات اور الزامات کا سامنا کرنے کے لئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرکے مُلکی تاریخ کے باب میں سُہنرے حرفوں میں اپنانا م درج کرواکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو جائیں تو تب یہ بات پاکستانی قوم اور دنیا کو سچ اور حقیقی لگے کی کہ ہاں یار..!! وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف تو کھلے دل اور وسیع دماغ کے ساتھ سرزمینِ پاکستان میں دستوراور آئین اور قانون کی بالادستی کے خواہشمند ہیں ورنہ تو اِن کی دستور اور آئین کی مُلک میں بالادستی سے متعلق اَب تک کی کہی سُنی گئیں تمام اچھی باتیں اور خیالات جھوٹ ہی لگیں گے۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com