تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
قرآن کریم نے چودہ سو سال قبل ستارے اور ستارے کے درمیاں چاند اور سورج کے واسطے سے تفریق کی جانب اشارہ کردیا تھا، جبکہ جدید فلکیاتی ماہرین آخری صدیوں میں نجوم وکواکب پر ضوئی تحقیقات کرنے اور مائیکرسکوپ کے انکشاف کے بعد پہنچے ہیں چنانچہ ستارہ ایک روشنی آسمانی جسم ہے۔ جس کے اندر ذاتی طاقت ہوتی ہے، جبکہ کوکب ایک ایسا جسم ہے، جسکی روشنی ثابت ہے، اور جو ستاروں اور سورج سے روشنی حاصل کر کے منتقل کرتا ہے۔ اور یہی چیز تمام کواکب پرمنطبق ہوتی ہے، چنانچہ سورج ایک زبردست نیوکلیائی حیثیت رکھتا ہے جو فضا میں تیزی کے ساتھ تیرتا رہتا ہے، اور جس میں کمیت اور کیفیت کیاعتبار سے بدلنے والی مختلف شکلیں اور ٹمپریچر اور قوت اور روشنی ہوتی ہے، یہ ایک ثابت روشنی والی روشن ٹکیا نھیں ہے بلکہ وہ چمکدار چراغ ہے۔
ماہرفلکیات گلیلیو 1609ء کی تحقیقات کے مطابق چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ یہ زمین سے کوئی دو لاکھ چالیس ہزار میل دور ہے۔ اس کا قطر 2163 میل ہے۔ا س میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ اس سلسلے میں سویت یونین کی ریسرچ کے مطابق بتایاجاتاہے۔چاند دنیا کا واحد قدرتی سیارہ ہے، اور سولر سسٹم کا پانچواں سب سے بڑا سیارہ ہے۔ 1959ء میں”لونا پروگرام” کے تحت صرف ایک خلائی جہاز بھیجا گیا تھا، اور پھر اس کے بعد 1968ء میں یونائٹیڈ سٹیٹ کے ”ناسا اپولو پروگرام” کے تحت پہلی بار انسان نے چاند پر موجود چٹان یا پتھر کے نمونے لا کر ان کے بارے میں مزید ریسرچ کی، جو ابھی بھی جاری ہے۔
موجودہ دور میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 4.6 بلین سال پہلے ایک دمدار ستارہ زور دار دھماکے سے زمین سے ٹکرایا، جس سے دمدارستارہ اور زمین کا بہت سا مادہ تبخیر ہو کر زمین سے نکل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ مادہ زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اکٹھا ہو کر چاند بن گیا۔ پانی اور ایسے عناصر جو آسانی سے اْڑ سکتے تھے نکل گئے، اور باقی عنصر چاند کا حصہ بنے۔ اس نظریہ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ چاند کی کثافت زمین کی اوپر والی مٹی کی پٹیوں کی کثافت کے تقریباً برابر ہے، اور اس میں لوہا کی مقدار بہت کم ہے۔ کیونکہ دمدارستارے کا آہنی حصہ زمین میں دھنس گیا تھا جو زمین کا آہنی گودا بنا۔ شمارندہ پر Simulation سے اس نظریہ کو تقویت ملی ہے۔
20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔چاند کی حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ عام نظریہ یہ ہے کہ یہ زمین سے جدا ہوا ہے۔ چاند پر ہوا اور پانی نہیں ہے۔اور نہ ہی وہاں سبزہ وغیرہ ہے۔ چاند پر سب سے پہلے اپالو 2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کیے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میں لوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی کشش ثقل زمین کی نسبت چھ گنا کم ہے۔ چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ پر جا پہنچتا ہے۔زمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباًً 41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔چاند زمین کے اردگرد 27.3 دن میں چکر لگاتا ہے۔ اس کے راستے کو چاند کا مدار کہا جاتا ہے۔ چاند زمین کے مرکز سے اوسطاً 385000 کلومیٹر کے فاصلے پر 1.023 کلومیٹر فی سیکنڈ کی اوسط رفتار سے چکر لگاتا ہے۔ افزائش مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔
15 اپریل 2014 ء کو ہونے والا پہلا مکمل چاند گرہن ٹیٹراڈ کے سلسلے کی ابتداء تھی۔ دوسرا مکمل چاند گرہن 8 اکتوبر 2014 ء کو ہوا اور اگلے دو 4 اپریل 2015 ء اور 28 ستمبر 2015 ء کو ظہور پذیر ہوں گے۔21ویں صدی میں ہونے والے آٹھ ٹیٹراڈ میں سے یہ ایک ہے۔ زیادہ تر چاند گرہنوں کی مانند اس سے پہلے بھی چندسال قبل 15 اپریل کو چاند گرہن کے وقت سرخ رنگ کا دکھائی دیا جو ریلے کے پھیلاؤ کی وجہ سے تھا۔ یہ رنگ اس وقت دکھائی دیتا ہے جب سورج کی روشنی زمین کی فضاء سے گذر کر چاند پر پڑتی ہے۔ عین یہی کلیہ غروب ِ آفتاب کے وقت سورج کے سرخ دکھائی دینے کا سبب ہے۔ خونی چاند کو بطور شگون استعمال کرنے کی بنیاد دراصل ”جوئل کی کتاب” میں درج ہے جس میں لکھا ہے کہ”سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند سرخ ہو جائے گا اور اس کے بعد قیامت کا دن آئے گا”۔ یہ فقرہ دوبارہ سینٹ پیٹر نے بھی دہرایا ہے اور یہ بیان”ایکٹس” میں درج ہے۔
2008 ء کے لگ بھگ بلٹز نییسوع مسیح کے دوبارہ آنے کی پیشین گوئی کی تھی کہ وہ 2015 کی خزاں کو ظاہر ہوں گے اور اس سے قبل سات سال شدید مشکلات اور آفات آتی رہیں گی۔اس کا خیال تھا کہ اس نے قیامت کے ظہور کی فلکیاتی علامات تلاش کر لی ہیں اور اگلا ٹیٹراڈ قیامت کے ظہور کی ابتداء ہوگا۔ جب یہ پیشین گوئی ناکام ہوئی تو اس نے اپنی ویب سائٹ سے مضمون کو ہٹا تو دیا لیکن ٹیٹراڈ کی اہمیت کے بارے لوگوں کو آگاہی دیناجاری رکھا۔ ہاگی نے بلٹز کی پیشین گوئی پر ”فور بلڈ مونز” نامی کتاب لکھی جو جلد ہی بیسٹ سیلر بن گئی۔ تاہم اس کتاب کے مطابق پچھلے 500 سال کے ٹیٹراڈ دراصل یہودی اور اسرائیلی تاریخ میں اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی نوعیت اولاً تکلیف اور بالآخر فتح پر منتج ہوتی ہے۔اس سلسلے میں26 جولائی 2013 ء میں بی بی سی نے ایک رپورٹ نشر کی جس میں بتایاگیا کہ ”پورے چاند کی راتوں میں نیند کم آتی ہے”تحقیق کے شرکا کو اس تحقیق کا مقصد معلوم نہیں تھا اور نہ ہی وہ اپنے بستروں سے چاند کو دیکھ سکتے تھے۔ ڈاکٹر نیل سٹینلی اور دیگرسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رات کو پورا چاند لوگوں کی نیند پر منفی اثر ڈالتا ہے۔محققین نے انتہائی باریکی سے ایک تجربہ گاہ میں 33 رضاکاروں کی نیند کا جائزہ لیا اور انھیں چاند کی شکل کے اثرات ملے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ ایسے سلسلہ صدیوں سے جاری ہے جاری رہے گا،لوگوں کو ایسی باتیں سے گمراہ نہیں ہونا چاہے ۔اور ایساوقت میں علماء کرام کو اہم کردار اداکرنا چاہئے۔
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ