تحریر: علی عمران شاہین
سرزمین حرمین شریفین سعودی عرب ایک نئے خطرے سے دوچار ہے۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب نے عرب لیگ کا دو روزہ اجلاس طلب کیا جس میں طے ہوا کہ اب عرب ممالک کے دفاع کے لئے 40 ہزار کی مشترکہ فوج بھی بنائی جائے گی۔ اس خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اپنے سب سے اولین اور ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ نبھانے والے دوست سعودی عرب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ ہو یا افریقی ممالک، مشرق بعید ہو یا یورپ یا دنیا کا کوئی اور خطہ۔ ہر جگہ مسلمانوں کو گھیر گھیر کر اور باہم لڑوا کر مارنے، ختم کرنے اور ساری دنیا پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کے خواب دیکھنے والا ملک امریکہ ہی ہے۔
امریکہ نے ہی اس وقت سعودی عرب کے عین ساتھ واقع ممالک عراق، شام میں جنگیں بھڑکا رکھی ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ ان دونوں ممالک میں جاری جنگ بالآخر سعودی عرب میں داخل ہو اور مسلمانوں کا ہر لحاظ سے مرکز و محور، دنیا میں حدود اسلامی کو قائم کرنے والا اور امن کا گہوارہ یہ ملک خانہ جنگی اور تباہی و بربادی کا اس طرح شکار ہو جس طرح عراق اور شام ہیں۔ یہ حرمین شریفین کے خلاف ایک بہت بڑی اور منظم سازش ہے جس کے ڈانڈے اسرائیل سے بھی ملتے ہیں جس نے اپنے نقشہ میں، اپنی خیالی حدود میں مکہ اور مدینہ کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ عراق میں امریکہ حملہ کر کے کل تک کے اتحادی صدام حسین کا دھڑن تختہ کر کے اسے پھانسی پر بھی لٹکا دے گا۔ اس امریکہ نے بلاجواز عراق پر بھی حملہ کیا تو اس کے بعد وہاں اپنی مرضی کی جو حکومت قائم کی اس کے ہاتھوں اب عراق مکمل بربادی کے دہانے پر ہے۔ ہر طرف لوٹ مار اور تباہی کا بازار گرم ہے۔ امریکہ نے پہلے شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا پھر جب بشارالاسد کو خطرہ لاحق ہوا تو اسی کا ساتھی بن گیا۔ یوں اب شام کا عظیم ملک خاک و خون میں غلطاں اور سارا ہی ملک ملبے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ملک کا حکمران خود ہی اپنے ہاتھوں یوں اپنے ملک کو تباہ اور اپنے عوام کو قتل کرے جس طرح شام میں ہو رہا ہے، ہرگز نہیں۔ یہ اچھا ہوا کہ ہماری قومی، دینی و سیاسی جماعتوں کو بھی اس مشکل کا ادراک ہو رہا ہے اور وہ سعودی عرب کے دفاع کی کھل کر تائید کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سعودی عرب ہمارا سب سے بڑا محسن اور دوست ہے اور جب محسن اور دوست پر مشکل وقت آئے تو اس کو تنہا نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اس کی مدد کی جاتی ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم سعودی عرب کو چھوٹے ہتھیار اور جنگی طیارے فروخت کر رہے ہیں۔ ہمارے ہتھیاروں کی صنعت ترقی پا رہی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جس نے گزشتہ سال پاکستانی ترقیاتی فنڈ کے لئے بلاوجہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا تھا تو آسمانوں تک پہنچا ڈالر یک دم نیچے گرا اور پاکستانی معیشت کو ایک بڑا سہارا ملا تھا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں بھی گواہ ہیں کہ سعودی عرب نے ہمارا ہر ممکن کھل کر ساتھ دیا تھا۔ سعودی عرب وہ تھا کہ جب پاکستان نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو جو ہمارے اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے خفیہ اور علانیہ ہر موقع پر ہر ممکن طریقے سے معاون رہا۔ اب لوگ تسلیم کرتے ہیں جبکہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے لئے کم از کم 60 فیصد امداد سعودی عرب نے ہی فراہم کی ہے۔ وہی ایٹمی پروگرام آج پاکستان کا سب سے بڑا دفاع ہے جس نے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو روک رکھا ہے۔ ہمیں وہ وقت یاد ہے جب 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو ساری دنیا نے ہمارے ملک پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے اس موقع پر بھی ہمیں ساڑھے 5 ارب ڈالر کی امداد نقد اور تیل کی صورت میں دی تھی اور ہمیں مشکل سے نکالا تھا۔ کتنے سال ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں سعودی عرب ہمیں روزانہ کی بنیاد پر 50 ہزار بیرل تیل مفت دیتا رہا۔ جنوری 2014ء کو دونوں ممالک نے دفاعی معاملات کو یکجان کر کے فروغ دینے کا اعلان کیا تو سعودی سرمایہ کار ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے لئے پاکستان آتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سعودی حکومت ہی ہے جو اب یہاں پاکستان میں زرعی اجناس کاشت کر کے پھر انہیں خود اپنے ملک برآمد کر کے ہمیں قیمت ادا کرنے کی تجویز دے چکی ہے جس سے پاکستان کو تیل بھی سستا ملے گا تو لاکھوں ایکڑ بنجر پڑی زمینیں بھی آباد ہوں گی۔ جتنی رقم ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے کشکول لے کر ذلت کے ساتھ قرضہ کی شکل میں وصول کرتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں سعودی عرب سے عزت کے ساتھ ملتی ہے۔ پاکستان میں جب کبھی کوئی ناگہانی آفت آئی، سعودی عرب کی امداد اور تعاون سب سے پہلے اور سب سے زیادہ دیکھنے کو ملا۔ 2005ء کا زلزلہ ہو یا اس کے بعد آنے والے مسلسل سیلاب، سعودی کردار ہمارے سامنے ہے۔
کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جہاں کئی ملین پاکستانی برسرروزگار ہیں جو سالانہ اربوں ڈالر ہمیں زرمبادلہ کے طورپر بھیجتے ہیں۔ ہمیں یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یمن میں تو ہمارے تین ہزار لوگ مقیم تھے جنہیں خطرہ ہوا تو ہمیں ان کو نکالنے کے لئے جان کے لالے پڑ گئے۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی لوگوں میں سے جرائم کا ارتکاب کرنے والے بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن سعودی عرب نے اس بنیاد پر کبھی پاکستانیوں کا اپنے ملک میں داخلہ بند نہیں کیا بلکہ اب بھی ان کی ترجیح دنیا کے کئی ملکوں کی کئی گنا سستی لیبر کو چھوڑ کر پاکستانی لیبر ہی ہے۔ جب کئی پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں تو سعودی عرب کا دفاع ہمارا اپنا دفاع بنتا ہے۔ اللہ نہ کرے اگر دشمن کامیاب ہوا اور یہ لاکھوں پاکستانی پاکستان واپس آئے تو ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟
سعودی عرب کا دفاع حرمین شریفین کی وجہ سے سب سے زیادہ مقدم و ضروری ہے۔ اگر سعودی عرب کے دشمن اپنے ناپاک عزائم کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو لازمی طور پر وہاں جانے کے سارے راستے اور مقامات غیرمحفوظ ہوں گے۔ ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق یمن کے باغیوں نے حرمین شریفین کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس کے بعد تو ہمیں کسی صورت سعودی عرب کے دفاع اور تعاون سے ہاتھ کھینچنے کا تصور بھی ذہن سے نکال لینا چاہئے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ پاکستان کے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ مضبوط اور گہرے تعلق کی بنا پر ہمارے ازلی اور ابدی دشمن بھارت کو وہاں قدم جمانے کا موقع نہیں ملا ورنہ دنیا کی دوسری بڑی ریاست تو سب کے لئے کشش کا باعث تھی۔ اگر ہم نے اس موقع پر سعودی عرب کا ساتھ نہ دیا تو لازمی طور پر بھارت آگے آئے گا اور اپنے کندھے پیش کر کے ہمیں نئی مشکل میں ڈال دے گا جس طرح اس نے نائن الیون کے بعد امریکہ کو پاکستان کی جگہ پیش کش کر دی تھی اور اب وہ ایک بار پھر افغانستان میں امریکہ کو مدد و تعاون فراہم کر کے پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے۔ صاف نظر آتا ہے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ دنیا کے کسی مسلم ملک کو امن و سکون کے ساتھ نہیں رہنے دیں گے۔ افریقہ کے تمام مستحکم مسلم ممالک اس وقت اس امریکی آگ میں جل رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ دہک رہا ہے تو اب نشانہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک ہیں جہاں امن قائم ہے۔ سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی ایک سازش 2011ء میں بھی بحرین کے راستے ہوئی تھی جسے سعودی عرب نے کمال حکمت و فراست سے قابو کر لیا تھا۔ یہی دکھ اس سازش کے رچانے والوں کو کھا رہا ہے ۔اب وہ ایک نیا سازشی جال لے کر آئے ہیںجسے ہم نے ناکام بنا کر اپنی سرزمین کا بھی دفاع کرنا ہے۔
تحریر: علی عمران شاہین