counter easy hit

انوار حسنہ حصہ دوئم

Fakh

Fakh

تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
عرب کے معروف ادیب، دِعْبَل ِخُزّاعِْ (ابوعلی دِعْبَلْ بن علی بن رزین کُوْفِْ اَلْخُزَّاعِْ 148تا 245ء مدفون شوش خوزستان ایران) کہتے ہیں؛ قَبُوْر بکُوفانٍٍ واُخریٰ بطیَبةٍ وَ اُخریٰ بِِِفَخٍّ نالَھَا صَلَوٰتِ وَ اُخریٰ باَرضِِ الْجُوْزَجَانِِ مَحِلُّھَا وَقَبَرُُ بِبَاخُمریٰ لِذِْ الْقُرُبَاتِ کچھ قبریں کوفہ میں ہیں، کچھ اور طیبہ میں ہیں۔ کچھ اور فخ میں ہیں۔ ہمارادرودوسلام انھیں پہنچے۔ کچھ قبروں کا مقام سرزمین جوزجان میں ہے۔ ایک قبر عالم غربت میں باخمریٰ میں ہے۔ فَخْ، مکہ معظمہ سے ایک فرسخ تقریباََآٹھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے، جہاں ابو عبداللہ سیدنا حسین بن علی العابد اپنے سو رفقاء و جانثاران کے ہمراہ عباسی خلیفہ ،ہادی بن منصور کے سپہ سالار محمد بن سلیمان عباسی کی افواج سے لڑتے 8ذوالحجہ 169ھ،یوم الترویہ کو بیدردی سے شہید کر دیے گئے اور آپ کے سراقدس کاٹ کر نیزوں پہ بلند ہوئے اور اجسادِ طیبہ، طاہرہ بلا کفن و دفن چھوڑ دیے گئے۔ خوف و ہراس کے باعث کوئی شخص ان کے قریب نہ جاتا تھا اور طویل عرصہ ، یہ اجسادِ جاوداں وادیء فخ کو مہکاتے رہے۔

شہید ِ فخ پر رسول اللہ ۖ اور صادق ِآل ِمحمد ۖکا گریہ
پانچویں خلیفہ ٔرسول سیدنا امام محمد باقر فرماتے ہیں، ”ایک مرتبہ حضرت رسول اکرم ۖ کا مقام فخ سے گزر ہوا۔ حضور نبی کریم ۖ وہاں اترے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ دوسری رکعت کے دوران آپۖ پر گریہ طاری ہوا۔ لوگوں نے حضرت رسول اللہ ۖ کو روتے دیکھا تو خود بھی رونے لگے۔ جب آپ ۖ نماز سے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو لوگوں سے پوچھا، ”تم لوگ کیوں رو رہے تھے؟”۔ لوگوں نے کہا ”یا رسول اللہۖ! ہم نے آپۖ کو روتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی رونے لگے۔” آپۖ نے فرمایا، ”جب میں پہلی رکعت پڑھ رہا تھا تو جبرئیل امین نازل ہوئے اور کہا، ” یا رسول اللہ ۖ! اس مقام پر آپۖ کی اولاد میں ایک مرد شہید ہوگا۔ ان کے ہمراہ جو لوگ شہید ہوں گے ان کو دو شہیدوں کا اجر دیا جائے گا۔

””عَنْ زَیْد بِنْ عَلِْ قَالَ: اِنْتَھِْ رَسُوْلُ اللّٰہ اِلیٰ مَوْضَعَ فَخٍّ فَصَلّٰی بِاَصْحَابِہ صَلاَةَ الْجَنَازَةَ، ثُمَّ قَالَ ”یُقْتَلُ ھَا ھُنَا رَجُل مِّنْ اَہْلِ بَیْتِْ فِْ عِصَابَةٍ مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ، یُنَزَّلَ لَھُمْ بِاَکْفَانٍ وَحَنُوْطٍ مِّنَ الْجَنَّةْ، تَسْبِقُ اَرْوَاحَھُمْ اَجْسَادِھمْ اِلیَ الْجَنَّةْ ” سیدنا امام جعفر صادق علیہ الصلاة والسلام سادات ِ حسنی پہ ہونے والے انسانیت سوز مظالم اور دلخراش واقعات کے باعث23شب و روز بخار میں مبتلارہے اور نہایت بیقراری سے گریہ زاری فرماتے رہے ،یہاں تک کہ لوگوں کو آپ کی زندگی کا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ آپ کے مقدس آنسو،ریش ِ اقدس سے ٹپکتے تھے۔ آپ ان کے متعلق دعائیں کرتے فرماتے تھے کہ یہ لوگ معذور، ممدوح اور مظلوم تھے اور حق امام کے عارف بھی تھے۔آپ نے ان کے متعلق تعزیت نامے ارسال فرمائے۔

صَادِقُ الْاَقْوَال ،کَاظِمُ الْغَیْظ اور جَوَّادُالْاَئِمَّةْ کا شہدائے فَخْ کوتحسین وسپاس،جنات کا نوحہ ” لَمْ تَکُنْ مُصِیْبَةٍ بَعْدَ کَرْبَلاَ اَشَدُّ وَاَفْجَعَ مِنْ فَخٍّ ”کربلا کے بعد فخ سے بڑھ کر کوئی سانحہ خونچکاں نہیں۔ نضر بن قرواش روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت امام جعفر صادق مدینہ سے چلے۔جب ہم ” بطن مرة” سے آگے بڑھے تو آپ نے فرمایا،”اے نضر! جب مقام فخ پر پہنچو تو مجھے بتا دینا۔”میں نے آپ کو ”مقام فخ” آنے پر بتایا تو آپ نے سواری کو بٹھایا، اس مقام پر نماز پڑھی پھر سوار ہو گئے۔ میں نے عرض کی،”میں آپ پر قربان، آپ نے اس مقام پر نماز پڑھی۔ کیا یہ مناسک حج میں سے ہے؟”آپ نے فرمایا،”نہیں، مگر اس مقام پر میرے اہل بیت میں سے ایک شخص قتل ہوگا اور اس کے ساتھ جو لوگ شہید ہوں گے ان کی ارواح و اجساد دونوں جنت میں جائیں گے۔

”جب تمام شہدائے فخ کے سرہائے اقدس لے کر پہنچے تو کسی نے ساتویں تاجدار مامت ،سیدنا امام موسیٰ بن جعفر الکاظم سے پوچھا ،”کیا یہ حسین کا سر ہے؟” آپ نے فرمایا ،” اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِِلَیْہِ رٰجِعُوْن، مَضیٰ وَاللّٰہ مُسْلِماً صَالِحاً، صَوَّاماً قَوّاماً، آمِراً بِالْمَعْرُوْفِ نَاھِیاً عِنِ الْمُنْکَرِ، مَاکَانَ فِْ اَہْلِ بَیْتِہ مِثْلِہ”،”ہاں! اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِِلَیْہِ رٰجِعُوْنْ، یہ قتل ہو گئے۔ اللہ کی قسم! یہ مسلمان، مرد ِصالح تھے۔ بہت زیادہ روزہ رکھتے تھے۔ نیکی کا حکم دیتے اور برائیوں سے منع کرتے تھے۔ وہ اپنے خاندان میں بے مثل تھے۔”نانویں تاجدار امامت سیدنا امام محمد تقی الجواد نے فرمایا،” لَمْ یَکُنْ لَّنَا بَعْدَ الْطَّفِّ مَصْرَعَ اَعْظَمُ مِنْ فِخٍّ ”، ”کربلا کے بعد ہمارے خاندان پر فخ سے بڑا کوئی المیہ نہیں۔”

صالح فرازی روایت کرتے ہیں کہ جس شب حسین صاحبِ فخ شہید ہوئے تو چشمہ غطفان پر غیبی آوازیں سنائی دیتی تھیں او رجنات کے قبائل اشعار میں نوحہ خوانی کرتے تھے۔ ایک شعریہ تھا،”اگر حسین پر انسانوں میں سے کوئی رونے والا نہیں ہے تو نہ ہو۔ جنات میں سے ہر بوڑھا اور جوان حسین پر روئے۔”لوگ یہ اشعار سن کر روئے ،یہاں تک کہ حسین صاحبِفخ کی شہادت کی خبر ملی۔شہید ِ فخ کی سخاوت سیدنا حسین بن علی کا ایک باغ تھا جو چالیس ہزار میں فروخت ہوتا تھا۔ وہ اس رقم کو اپنے گھر کے دروازے پر رکھ کر مٹھی بھر بھر کے فقراء و مساکین میں تقسیم کرتے اور ایک پیسہ بھی گھر نہیں لے جاتے تھے۔

سانحۂ فخ
ماہ ذوالحجہ 169ھ کو سیدنا حسین ابن علی العابد حسنی ،تین سو جانثار اعزا و رفقا کے ساتھ حج کے ارادے سے مدینہ سے نکلے۔ ادھر بنی عباس کا ایک گروہ مسلح ہوکر محمد ابن سلیمان کی سالاری میں وادی ٔ فخ میںحائل ہوا۔گیارہ جون سات سوچھیاسی عیسوی مطابق آٹھ ذوالحجہ، یوم الْتَّرْوِیَةْ کی صبح لشکر ترتیب دیا گیا۔بنی عباس نے جنگ کا آغاز کیا۔ سادات ِحسنی نے حملہ کا جواب دیا اور بھر پور جنگ شروع ہو گئی۔ کچھ دیر گزرنے پر بنی عباس نے سادات کا پلہ بھاری دیکھا اور بجز دھوکہ دہی کوئی راہ نظر نہ آئی۔ انھوں نے دھوکہ دینے کے لیے شکست کھائی اور وادیٔ فخ میں داخل ہو گئے۔لشکر حسین ابن علی نے ان کا تعاقب کیا اور اسی وادی میں داخل ہوگئے۔ بنی عباس کے کچھ لشکر نے عقب سے حملہ کر دیا اور سادات کو اس وادی میں گھیر لیا۔

ایک ہی حملہ میں کافی علوی شہید ہوگئے جن میں سلیمان بن عبداللہ محض اور عبداللہ بن اسحاق بن ابراہیم غمر سر فہرست ہیں۔ حسن ابن ِمحمد کی آنکھ میں تیر لگا اور وہ بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ سیدنا حسین بن علی برابر لڑ رہے تھے اور داد شجاعت دے رہے تھے۔ حماد ترکی ملعون نے تیر چلہ میں جوڑ کر نشانہ باندھا جس سے وہ شہید ہوئے۔ عباسی سالار نے اس کے عوض اسے سو جوڑا لباس اور ایک لاکھ درہم انعام دیا۔سادات حسنی میں سے کچھ زخمی ہوئے اور کچھ اسیر کر لیے گئے جن سے بدترین سلوک کیا گیا۔

سو شہدا کے سروں کو جسم سے جدا کیا گیا اور اجسام بلا کفن و دفن چھوڑ دئیے گئے۔ ان سروں کو قیدیوں کے ہمراہ موسیٰ ہادی کو بھیج دیا گیا، جس نے ان کے قتل کا حکم دیا۔ادھر مدینہ میں گورنر عبدالعزیز عمری لَعْنَةُاللّٰہِ عَلَیْہِ وَآبَائِہ نے اہل ِبیت ِاطہار ،سادات ِعظام اور ان کے پیرو کاروں کے اموال لوٹنے کا حکم دیا۔ ان کے گھر لوٹ کر آگ لگادی گئی۔” وَلَمّا بَلَغَ الْعُمْرِ وَھُوَ بِالْمَدِیْنَةِ قُتِلَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلٍِّ صَاحِبَ فَخٍّ، عَمَدَ اِلیٰ دَارِہ وَدَوْرِ اَھْلِہ فَحَرِّقْھَا، وَقَبَضَ اَمْوَالِھمْ وَنَخْلِھمْ فَجَعَلَھَا فِ الْصَّوَافِْ الْمَقْبُوْضَةٍ ”

شہدائے فخ اس عظیم سانحے میں جو سرکردہ سادات ِطالبین شہید ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں؛
سیدنا یحییٰ ، سیدنا سلیمان ، سیدنا ادریس فرزندان ِسیدنا عبداللہ محض ، سیدنا علی بن ابراہیم بن حسن ، سیدنا ابراہیم طباطبا بن اسمٰعیل دیباج، سیدنا حسن بن محمد بن عبداللہ محض ، سیدنا عبداللہ و عمروْ فرزندان اسحاق بن حسن بن علی بن الحسین ، سیدنا عبداللہ بن اسحاق بن ابراہیم الغمر بن سیدنا حسن مثنّٰی۔

عباسی لشکر کا سپہ سالار محمد بن سلیمان عباسی ملعون جب واصل جہنم ہونے لگا تو لوگ اسے کلمۂ شہادت کی تلقین کر تے تھے جس کے عوض وہ یہ شعر کہتا فی النار ہوا، الاَ لَیْتَ اُمِّ لَمْ تَلِدْ وَ لَمْ اَکُنْ، لَقِیْتُ حُسَیناً یَوْمَ وَلاَ حَسَنَ،کاش میری
ماں مجھے پیدا نہ کرتی ، تاکہ میں یوم ِفخ حسن اور حسین سے جنگ نہ کرتا۔

اے حسن ابن ِ علی کے جگر پارو السلام فاطمہ صغریٰ کے شبّیری دلارو السلام
مصطفٰی ۖکی آل کے روشن ستارو السلام اے خدا کے دین کے محکم حصارو السلام
بابِ شہرِ علم کے اونچے مینارو السلام گلشن ِ زہرا کو مہکاتی بہارو السلام
کربلائے فخ کے جرّی جانثارو السلام کشتگان ِدین کے عالی وقارو السلام
اے علی عبّاس کے دل کے سہارو السلام سیّدو ، رسمِ وفا کے پاسدارو السلام

Dr Syed Ali Abbas Shah

Dr Syed Ali Abbas Shah

تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ