اسلام آباد(ایس ایم حسنین)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق جارحانہ پالیسیوں کے بعد اُمید ہے کہ جو بائیڈن، ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ بارے پالیسیاں تبدیل کریں گے۔ عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط نے اُمید ظاہر کی ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں تبدیلی لائے گی اور فلسطینیوں کی آزادی کے حصول کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی جماعتوں کے تعاون سے ایک سیاسی عمل کا آغاز کرے گی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 22 رکنی تنظیم کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیل اور فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کو ‘مرکزی ثالث نے دبا دیا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس سے اسرائیلی حکومت کو آباد کاری کی سرگرمیاں تیز کرنے اور مقبوضہ اراضی پر قبضہ کرنے جیسے خطرناک اور تباہ کن اقدام اٹھانے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے’۔عرب لیگ کے سربراہ نے اسرائیل-فلسطین تنازع کے وسیع تر پہلوؤں اور مشرق وسطیٰ کے تنازع پر بریفنگ دی۔ انہوں نے ایران کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ ‘چند علاقائی قوتیں بین الاقوامی تجارت کے لیے انتہائی ضروری سمندری راستوں کی سلامتی پر منفی اثر ڈالتے ہوئے عرب خطے کے امور میں مداخلت کر رہی ہیں’۔ انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد، یمن کے حوثی باغیوں اور حماس، جو غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، کے لیے ایران کی حمایت کا براہ راست حوالہ دیے بغیر کہا کہ ‘یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ یہ مداخلت موجودہ تنازع کو مزید پیچیدہ کردیتی ہے’۔ابوالغیط نے شام میں 10 سال خانہ جنگی، یمن کی جنگ ساتویں سال میں داخل ہونے اور ‘لیبیا میں محصور ڈویژنز’ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس اور جاری تنازع اور بحرانوں نے ‘ایک خطرناک صورتحال پیدا کی ہے جس کی وجہ سے خطے کے عوام کو بھاری نقصان پہنچا ہے’۔انہوں نے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دفتر چھوڑنے سے قبل آخری لمحات میں منظوریوں کے تحت اسرائیلی حکام کی جانب سے مغربی کنارے کی بستیوں میں 800 کے قریب مکانات تعمیر کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے ایک روز بعد بات کی۔ ابوالغیط نے کہا کہ دو ریاستی حل کی توثیق کے لیے آنے والے مہینوں میں تمام فریقین کو ‘اہم کوششیں’ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے پالیسیوں اور عمل کو بہتر بنانے کے منتظر ہیں، ‘اس سے فلسطینی عوام کو نئی اُمید ملے گی کہ عالمی برادری آزادی اور آزادی کے حصول کے لیے اس کی عظیم امنگ میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی’۔ شام کے بارے میں ابوالغیط نے کہا کہ 5 ممالک فوجی طور پر مداخلت کر رہے ہیں اور ‘سیکیورٹی کی صورتحال خاص طور پر شمال مغرب، شمال مشرق اور جنوب میں، ہنگامہ خیز اور خطرناک ہے’۔ انہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف سیاسی تصفیے کے امکانات کو مجروح کیا جارہا ہے بلکہ اتنے ہی سنگین انسانی نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں جبکہ 90 فیصد شامی شہری غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ علاقائی قوتیں شام کی سرزمین کو جنگ کے میدان کے طور پر دیکھتی ہیں’۔ یمن کے بارے میں عرب لیگ کے سربراہ نے کہا کہ ‘صورتحال حاص طور پر انسانیت سوز صورتحال اتنی ہی خطرناک ہے جہاں یمنی عوام کو غذائی قلت کا سامنا ہے’۔انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفتھس کے مشترکہ اعلامیے میں جنگ بندی اور اعتماد سازی کے اقدامات پر زور دینے کے لیے حوثیوں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان معاہدہ حاصل کرنے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کی۔
فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیلی اقدام کی سخت مذمت کی۔
فلسطینیوں نے مستقبل کی آزاد ریاست کے ایک حصے کے طور پر 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں آنے والے تمام مغربی کنارے پر دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آبادکاری میں بڑھتی آبادی تقریبا 5 لاکھ لوگوں تک پہنچ چکی ہے جس سے ان کی آزادی کے خواب کو حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔