لاہور: رؤوف کلاسرا نے لکھا کہ ’’ابھی اگلے روز ہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے عدالت میں پوچھا کہ رئوف کلاسرا کدھر ہیں‘وہ خود عدالت میں موجود نہیں‘ لیکن اکثر اپنے ٹی وی شوز میں کہتے رہتے ہیں کہ عدالت اور ہم ججز کچھ نہیں کررہے‘ دیکھ لیں ہم نے ان افسران کی فہرستیں اکٹھی کرالی ہیں‘ جنہوں نے دوہری شہریت لے رکھی ہے‘ کام ایسے نہیں ہوتے ‘کچھ وقت لگتا ہے۔بلاشبہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے کم وقت میں بڑے بڑے کام کرنے کی کوشش کی ہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ یہ اتنا آسان کام نہیں کہ آپ اکیلے ایسے معاشرے میں چیزیں درست کرنے کی کوشش کریں‘ جہاں یہ سمجھا جاتا ہو کہ احتساب ہونا چاہیے ‘معاشرہ ٹھیک ہو اور لوگ بھی سدھر جائیں‘ لیکن یہ احتساب کسی اور کا ہو‘ میرا نہ ہو‘۔
کچھ دن پہلے کرائم رپورٹر مدثر حسین کی خبر چھپی تھی کہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدراشرف نے کینیڈا کی شہریت لے لی ہے اور وہاں سولہ لاکھ ڈالرکا گھر بھی خرید لیا ہے ۔ پاکستان میں اپنے درجنوں پلاٹ اور جائیدادیں بیچ کر وہ کینیڈا چلا گیا ہے اورایک سال کی چھٹی بھی لے گیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں رہا‘ گریڈ انیس کے افسر کے پاس کروڑوں کہاں سے آئے‘ جس سے اس نے کینیڈا بچے بھی شفٹ کر لیے اور جائیدادیں بھی خرید لیں۔میرا مؤقف رہا ہے کہ دراصل جس جس افسر کے پاس دوہری شہریت ہوگی ‘ مان لیں ان میں سے زیادہ تر افسر دو نمبری کررہے ہیں‘وہ اس ملک کے وفادار نہیں رہے۔ ایک گریڈ سترہ کے افسر کی پچاس ہزار تنخواہ ہے‘ وہ کیسے کینیڈا‘ امریکہ‘ برطانیہ ‘نیوزی لینڈ‘ سپین یا یورپ میں بیوی بچوں کو سیٹل کرا کے وہاں کی شہریت لے سکتا ہے؟ امریکہ یا یورپ میں کئی برس رہنے کے بعد آپ کو شہریت ملتی ہے‘ یا پھر آپ دس کروڑ تک وہاں سرمایہ کاری کریں۔ جب وہ افسر پاکستان میں نوکری کررہا ہے اور بیوی بچے سات برس تک امریکہ یا لندن رہتے ہیں تو اخراجات کہاں سے آتے ہیں؟ وہ کیسے فلیٹ خرید لیتے ہیں یا گھر کا خرچ چلاتے ہیں‘پاکستان بھی آتے جاتے ہیں؟ پھر وہ افسر خود بھی شہریت اپلائی کرچکا ہوتا ہے۔ وہ کیسے پاکستان میں بھی ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے اور لندن یا کینیڈا میں بھی موجود ہوتا ہے؟
دراصل ہوتا یوں ہے کہ اکثر ایسے افسران ایک دوسرے سے مل کر ایک ایک سال کی چھٹی لے کر بیرون ملک وقت پورا کرتے ہیں۔ کینیڈا جیسے ملکوں میں چند ماہ گزارنا ضروری ہوتا ہے‘ جب تک شہریت مکمل نہ مل جائے‘ یا پھر افسران دس کروڑ تک سرمایہ وہاں شو کرتے ہیں ۔ یہ افسران چھٹیاں لے کر وہ وقت پوراکرتے ہیں اور اپنا خرچہ پاکستان میں اپنی جاب میں اوپر کی کمائی سے پورا کرتے ہیں۔
یہی بات میں اپنے ٹی وی شوز میں بھی کرتا رہا ہوں کہ بیس سال اسلام آباد میں رپورٹنگ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کرپشن زیادہ تر سرکاری افسران کرتے ہیں۔یہی سیاستدانوں کو کرپشن کی راہ دکھاتے ہیں۔ سیاستدان کو دس روپے کی کرپشن کرا کے وہ خود سو روپے کی کرتے ہیں۔ سیاستدان جونہی وزیر بنے گا فوراً سرکاری افسران انہیں تین چار گاڑیاں پیش کردیں گے‘ حالانکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک گاڑی رکھ سکتے ہیں‘اس طرح وہ انہیں چھوٹی موٹی چوریاں سکھاتے ہیں۔ باقی چھوڑیں کہ وزیر کیسے کرپشن سیکھتے ہیں‘ آپ پارلیمنٹ کو ہی دیکھ لیں‘ پچھلی قومی اسمبلی کا ایک سکینڈل بریک کیا تھا کہ سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ہر دوسرا ایم این اے جعلی حاضریاں لگا رہا تھا۔ جب سیشن ہوتا ہے تو ایم این اے اگر شریک ہو تو تنخواہ کے علاوہ روزانہ کا پانچ ہزار روپے سیشن الائونس بھی ملتا ہے۔ یہ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ کا سٹاف تھا جس نے ان سیاستدانوں کویہ راستہ دکھایا کہ سر جی کوئی بات نہیں آپ لیہ‘ لاہور‘ جھنگ بیٹھے رہیں‘ ہم آپ کی یہاں حاضری لگا دیتے ہیں۔ ایاز صادق کو بھی پتہ تھا یہ کھیل چل رہا ہے لیکن وہ چپ رہا‘ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ کورم پورا نہیں ہوگا۔ اب اندازہ لگائیں کہ ایک ایم این اے اگر پانچ ہزار روپے کے لیے سرکاری افسروں کے ساتھ مل کر جعلی حاضریاں لگوا رہا ہے کہ وہ اسمبلی ہال میں موجود ہے‘ تو باقی کیا بچ جاتا ہے۔ جب ہمارا ایک ایم این اے پانچ ہزار روپے بھی چھوڑنے کو تیار نہیں تو پھر ہر کوئی لوٹ مار کرے گا۔
جب ہم نے دوہری شہریت کا معاملہ اٹھایا تو حیران رہ گئے کہ ہر طرف ہڑبونگ مچی ہوئی تھی‘کون سا ایسا محکمہ تھا جس کے افسران نے دوسرے ملک کی شہریت نہ لے رکھی ہو۔ فارن آفس کو چیک کیا تو وہاںسفارت کاروں نے لے رکھی ہے یا انہوں نے غیرملکی خواتین سے شادیاں کررکھی ہیں‘ وزارت داخلہ کے افسران نے لے رکھی ہے‘ فارن آفس کے بابوؤں کے بچے بیرون ملک سیٹل ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے قریب ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اسی ملک میں پوسٹنگ لے لیں تا کہ پاکستان نہ لوٹنا پڑے۔پاکستان پر نوے ارب ڈالرز کا قرضہ ویسے ہی چڑھ گیا ہے؟ یہ پیسہ کہاں گیا ؟ نوے ارب ڈالرز بہت بڑی رقم ہے‘ یا پھر سوئٹزرلینڈ میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالرز پڑے ہیں‘ وہ کہاں سے آئے ؟ یہ ہمارے سیاستدانوں کا لوٹا ہوا پیسہ ہے ۔ یہ دوہری شہریت والے افسران کا پیسہ ہے ۔ پھر پاکستانی ایکسپورٹرز نے بھی اس لوٹ مار میں حصہ ڈالا‘ جب انہوں نے ایکسپورٹس کے نام پر بیرون ملک کاروبار سے ملنے والے ڈالرز پاکستان لانے کے بجائے وہیں جائیدادیں خریدنے پر خرچ کر دیے۔ پاکستان میں یہ ایکسپورٹرز پاکستانی روپے کا ریٹ گروا کر‘ زیادہ ڈالرز کما کر وہیں بیرون ملک جائیدادیں لے رہے ہیں۔یہ انکشاف بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اور جب سوئس حکومت دو ہزار چودہ میں پاکستان کو ان دو سو ارب ڈالرز تک رسائی کے معاہدے پر دستخط کے لیے تیار تھی تو اسحاق ڈار نے اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ کو استعمال کیا اور وہ معاہدہ نہ ہونے دیا ۔ وہی طارق باوجوہ اس وقت گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان ہیں اور انہیں قطعا ًاحساس نہیں کہ پاکستان کا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔
اب ہم لوگ کہاں جائیں؟ اب ہم یہ بھی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار باقی کام چھوڑ کر گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ‘ سابق چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا اور چند ایف بی آر افسران کا ٹرائل شروع کریں‘ جنہوں نے جان بوجھ کر سوئس حکومت کے ساتھ دو سو ارب ڈالرز واپسی کی ڈیل نہیں ہونے دی ۔ ہماری توقعات چیف جسٹس صاحب نے خود بڑھائی ہیں۔ انہوں نے ملک میں جاری لوٹ مار کے خلاف قدم بڑھایا۔ آپ پر تنقید بھی ہوتی ہے لیکن بلاشبہ آپ نے اچھے کام کیے ہیں۔ دوہری شہریت کے حامل سب افسران مل کر ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں‘ یہ کما یہاں رہے ہیں اور بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے ہیں‘ ہم قرضوں تلے دب گئے ہیں ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو اب سب کو بلانا ہوگا ۔ دوہری شہریت والے افسران کے خلاف کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ پاکستان کے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ دو سو ارب ڈالرز معاہدے کو اسحاق ڈار کے کہنے پر بگاڑنے والے بیوروکریٹس طارق باجوہ اور طارق پاشا جیسے افسران سے ہی چیف جسٹس ثاقب نثار ساحب کو شروعات کرنی چاہیے۔اب رعایت کا وقت گزر چکا‘ مائی لارڈ!