ارسطو کو اس کے استاد افلاطون نے سبق دیتے ہوئے کہا٬ میں نے تم پر بہت محنت کی ہے اگر تم دنیا میں کسی بڑے مقام پر پہنچنا چاہتے ہو تو عورت سے ہمیشہ بچ کر رہنا ٬ یہ کائنات کی وہ تخلیق ہے جو بڑے بڑے کامیاب مردوں کو ناکام بنا دیتی ہے ٬ جو اس کے دام میں الجھ جاتا ہے وہ کام سے جاتا ہے٬
لہٰذا
تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم خود کو عورتوں سے محفوظ رکھو گے؟
ارسطو نے اپنے استاد سے وعدہ کر لیا کہ وہ ہمیشہ اس سبق کو یاد رکھے گا اور عورت کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا٬
ارسطو اپنی تعلیم میں دن رات محو تھا ٬
ایک بار اس کا سامنا اس زمانے کی ایک معروف طوائف سے ہوا وہ عورت عشوہ طرازیوں میں بہت مشہور تھی٬ آدھا شہر اسکے حسن کا دیوانہ تھا٬
اللہ نے اسے بہت خوبصورت بنایا تھا٬ یہ لمبی لمبی زلفیں ٬ ماہتابی چہرہ ہرنی جیسی غزالی آنکھیں ابرو جیسے تنی کمان ٬ جو دیکھتا بس دیکھتا رہ جاتا ٬
ارسطو کی اک نظر پڑی مگر اس نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا٬
اتفاق سے خاتون کی نگاہ اسی پر تھی ٬ اس کو زندگی میں پہلی بار بے عزتی کا احساس ہوا٬ اس نے اپنے ساتھ موجود ہرکارے سے معلوم کیا
کہ یہ کون آدم بیزار ہے جو اس کے حسن سے مرعوب ہوئے بغیر مُڑ گیا٬
اس کے بعد اس عورت کو جیسے ارسطو سے چِڑ ہو گئی دانستہ طور پے اس کے راستے میں آ جاتی اور ارسطو اپنے استاد سے کئے ہوئے وعدے اور پڑہے ہوئے سبق کے تحت ہمیشہ نگاہ نیچے کئے ہوئے لاتعلقی سے گزر جاتا
ایک دن وہ عورت نہ رہ سکی تو اس کے سامنے کا کھڑی ہوئی اور بڑی رعونت سے کہنے لگی
تم کیسے انسان ہو
دنیا میرے حسن کا دم بھرتی ہے اور میں تمہارے پیچھے ہوں تم ہو کہ نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے؟
آخر اس بیزارگی کی وجہ؟
مجھے میرے استاد نے ایک اہم سبق زندگی کا پڑہایا اور پھر وعدہ لیا کہ وہ سبق میں کبھی نہیں بھولوں گا ٬
اس کے استفسار کرنے پر آخر زچ ہو کر ارسطو کو بتانا پڑا کہ وہ عورت سے ہمیشہ دور رہے گا٬
یہ بات سن کر عورت کے لبوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ ابھری
کچھ دیر توقف کے بعد بولی
تم ایک کام کر سکتے ہو؟
کہو؟
تم فلاں دن فلاں وقت میں باغ کے اس کنج میں مقررہ وقت پر چھپ جانا
لیکن کیوں؟
سوال مت کرو
جو کہا ہے وہ کرو
یہ بھی زندگی کا ایک سبق ہے تمہارا استاد بھی مرے ساتھ ہوگا٬
کیا؟
ارسطو نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا
ہاں
بس ٹم پہنچ جانا
دن پر دن گزرتے گئے ارسطو کو شدت سے مقررہ دن کا انتظار تھا٬
آخر خُدا خُدا کر کے مقررہ دن آیا
یہ وقتِ مقررہ پے طے شدہ درختوں کے جھنڈ میں جا چھپا ٬
انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا٬
آخر بتائے ہوئے رنگ کے کے لباس کی جھلک نظر آئی تو ارسطو سمجھ گیا وہ خاتون وعدے کے مطابق آیا چاہتی ہے٬
حسن کی بجلیاں گراتی ہوئی خوب اہتمام سے لباس زیورات اور اداؤں کے مکمل سامان کے ساتھ وہ جلوہ گر ہوئی ٬
اوہ
یہ کیا؟
اس کے ساتھ کوئی تھا٬ قریب آنے پر پتہ چلا کہ وہ تو ارسطو کا استاد افلاطون ہے
بڑہاپے کے باوجود چہرے سے سرشار مسکراتا ہوا اس پر نثار ہوتے ہوئےوہ اس سے محو گفتگو تھا٬
جیسے ہی وہ عورت جھنڈ کے قریب آئی تو ارسطو غصے کی شدت سے تپے ہوئے چہرے کے ساتھ اچانک باہر آگیا
اور
اپنے استاد کو کہنے لگا
استادِ محترم مجھے تو آپ نے کہا کہ میں اس قسم کی عورتوں سے کوسوں دور رہوں اگر زندگی میں عزت اور کامیابی چاہتا ہوں٬
میری تو عمر ہے
آپ اس عمر میں یہ حرکتیں کر رہے مجھے شدید دکھ اور تاسف ہو رہا ہے٬
افلاطون اس اچانک افتاد سے سٹپٹا گیا٬
پلٹ کر دیکھا تو عورت مکاری سے مسکرا رہی تھی٬
افلاطون ذہانت کے اعلیٰ مدارج پر تھا وہ ایک لحظے میں سارا کھیل سمجھ گیا٬
بڑے رسان سے ارسطو کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا
برخوردار
یہ آج کا بہترین سبق ہے اور میرے دیے ہوئے سبق کی تصدیق اس سے بہتر نہی ہو سکتی تھی٬
کہ
دیکھ لو
اس عورت نے مجھ جیسے جہاندیدہ انسان کو بیوقوف بنا لیا تو تم جیسے نوجوان کس کھیت کی مولی ہیں؟
آج بھی وہی کہوں گا ٬
ایسی عورتوں سے بچ کر رہنا ٬
لازوال سبق جو صدیوں کا سفر طے کرتا ہوا آج بھی اسی اصول کو کامیاب دکھاتا ہے٬