تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
سپنی تو سینکڑوں سنپولیے جنتی ہے۔اور پھر فوری اپنے ہی بچوں کو کھانا شروع کردیتی ہے جو ادھر ادھر کھسک جاتے ہیں وہ بچ رہتے ہیں ۔یہ دنیا اور زمین و آسمان کے واحد مالک کا حکم ہے۔ کہ سپنی اپنے بچوں کو کھاتی ہے اگر یہ عمل نہ ہوتا تو آج ساری زمین پرصرف سانپ ہی سانپ نظر آرہے ہوتے۔ یہ خدائے عز وجل کی حکمتیں ہیں اور ان کوو ہی بہتر جانتا ہے۔ آج جس کے پاس طاقت ہے سبھی اس سے ڈرتے ہیں اگر ہم آج ایٹمی ملک نہ ہوتے تو ہندو بنیااور سامراجی ممالک ہ مارے ساتھ کسی اور ہی طرح سے ڈیلنگ کر رہے ہوتے۔ غرضیکہ(It is Not the Gun it is the man Behind) بندوق نہیں چلتی بلکہ یہ وہ آدمی ہی ہوتا ہے جو اسے چلاتا ہے۔
کئی ممالک کے پاس بم تو ہیں مگر انھیں حوصلہ ہی نہیں کہ وہ اسے چلاسکیں۔یہ مسلمان ہی کرسکتے ہیں کہ ان میں جہادی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں ۔مغلیہ خاندان ودیگر مسلمان شہنشاہ ایک ہزار سال تک ہندوستان پرحکمران رہے ۔ہندو و دیگر مذاہب کے لوگ تو اس وقت بھی تعداد میں کئی گنا تھے۔اسی طرح افغانی ،بلوچی وغیرہ سبھی جنگجواور مسلح قومیں ہیں۔اسی لیے آج تک ان پر کوئی قابض نہیں ہو سکا۔دوسری طرف پنجاب پر عرصہ دراز تک سکھ حکمران رہے۔آج کے دور میں لوگ طاقتور کو سلام کرتے اور کمزور کو دباتے ہیں۔
آج بھی روایت ہے کہ ایم ین اے ،ایم پی اے ،ناظمین وغیرہ مقتدر افرادکے ڈیرے عوام سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔اور جب گاڑی پر سرکاری جھنڈی نہیں ہوتی تو کوئی نزدیک تک نہیں پھٹکتااور شریفوں کو توبھول نہیں ہے کہ مقتدر تھے تو ملک بھر کا خصوصاً پنجاب کاوڈیرہ،کرپٹ جاگیردارساتھ تھا۔مگر جب جہازوں میں باندھ کر سعودیہ لے جایا گیاتو کوئی ائیر پورٹ پر الوداع کہنے والا بھی نہ تھا کوئی آنکھ نہ روئی یہی جاگیردار زمینی تہہ خانوں میں چوہوں کی طرح گم تھے۔اسلئے قو م کو طاقت ور بنائو،مسلح کرو فوجی ٹریننگ دوساری دنیا کانپے گی۔
کوئی ڈائیلاگ کرتے ہوئے بھی سو بار سوچا کرے گا۔اور ہندو بنیے اور سامراجیوں کا تو20کروڑ مسلح پاکستانیوں کی دہشت ،وہشت سے پاجامے گیلے ہوجایا کریں گے۔مگر یہ حوصلہ شاید شریفوںکو نہ ہو سکے۔اور ویسے بھی جب ہر شخص مسلح ہو گیا تو حکمرانوں کی غنڈہ گردی کہیں بھی نہیں چل سکے گی۔ایم پی اے ،ایم این اے بھیگی بلی کی طرح نظر آیا کریں گے۔انڈیا میں تو گائے کا گوشت کھانے ،اور اسے ذبح کرنے پر قتل عام کا لائسنس انھیں ملا ہواہے۔مگر ہمارے ہاں تو اللہ اکبر اور محمد رسول ۖاور نعرے لگاتے ہوئے افراد اسی نشان پر مہریں لگانے کوتیار ہیں۔اور پھرایسے افرادہی مقتدر ہو کرقوم کوتیار کرسکیں گے۔
اگر 100 بھیڑیں فوج میں ہوں اور ان کا جنرل طاقتور شیر ہو تو جنگ جیتی جاسکتی ہے۔اور سو شیر سپاہی ہوں اور جنرل بھیڑ ہو تو وہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ اسی طرح ملک بھر میں قلیل تعداد میں موجودہ بدمعاشوں ،ڈاکوئوں، غنڈوں،ازیت پسند لسانی و فرقہ وارانہ تنظیموں کواسلحہ اور لائسنس کی ضرورت نہیں ۔اگر ان کے پاس لائسنس ہوا تو واردات کے بعد پکڑا جانا آسان ہے۔ دوسری طرف شریف آدمیوں کو حکومت اسلحہ کا لائسنس دیتی ہی نہیں اس کے لیے سو بکھیڑے، ترلے منتیں اور پھر پولیس کلئیرنس کے لیے ڈھیر سارا مال متال دینا ضروری ہے۔
در اصل رشوت دیے بغیر ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں ہو سکتا۔تو اسلحہ کا لائسنس تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔طاقت کا توڑ طاقت ہی ہوتی ہے جیسا کہ ہم جانتے ہی ہیں ۔کہ امریکہ برطانیہ روس کاہمارے اوپر کیارعب داب ہے یہ ممالک اسلحہ میں ہم سے زیادہ مضبوط ہیںاور اسی لیے تو دیگرترقی پذیر ممالک بھی ان کے ذہنی ہی نہیں بلکہ جسمانی غلام بھی ہیں ۔اور ہم بھی ان کے حکم کے تابع بنے رہتے ہیں۔ اگرہر کوئی مسلح ہو گا تو عام زندگی میںایک سیر ہو گا تو دوسرا سوا سیر۔اسلئے جھگڑے کی نوعیت آہی نہیں سکتی۔جب ہرشخص مسلح ہوگاتو کسی مائی کے لعل کی جھگڑے کرنے کی ہمت بھی نہیں پڑے گی۔اور اغوا برائے تاوان ،چوری،ڈکیتی ،راہزانی جیسے مظالم ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملیں گے۔الطاف حسین کی سابقہ تقریریں دیکھ لو اس میں انہوں نے یہی کہا تھا نہ کہ ٹی وی کی جگہ کلاشنکوف خریدوکوئی دوسری قوم آپکا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔
ہم مانیں یا نہ مانیں۔وہ پچیس تیس سال سے ڈنکے کی چوٹ پر الیکشن بھی” جیت “رہے ہیں اور ڈھیروں سرمایہ بھی جمع کر رکھا ہے۔آپ عید قربان پر بکرے کی کھال بھی اپنی مرضی سے کسی کونہیں دے سکتے۔آخر 70میں مجیب الرحمٰن بھی اپنی غنڈوں کی فوج کے زور پر ہی جیتا تھا۔اگر ہر فرد کوکسی اسلحہ لائسنس کے ڈرامے کے بغیرایک آدھ اوزار رکھنے کی اجازت ہوتی توکوئی غنڈہ شخص مقتدر نہ ہو سکتا۔حکومت چاہے تو اب بھی حالات سدھر سکتے ہیں ہمہ قسم دہشت گردی دفن ہو کر رہ جائے گی۔
ہر مسلح شخص کواپنے تھانہ میں اپنے پاس موجود اسلحہ کا اندراج کروانالازم قرار دیا جائے ۔جو غریب بے بس لوگ رقوم خرچ کرکے اسلحہ خرید نہیں سکتے خصوصاً بارڈروں پر موجودافرادتو انھیں حکومت خودٹریننگ دے کراسلحہ مہیاکرے۔سکولوں ،کالجوں میں فوجی تربیت دی جاتی تھی اور اس کے امتحان میں نمبر بھی ہوتے تھے۔اب وہ عمل مکمل عنقاہو گیا ہے۔فوجی تربیت بطور لازمی مضمون کے دی جائے گی تو نوجوان نسل میں پاکستانیت کا جذبہ اور اپنے کھوئے ہوئے وقارو عزت کو واپس لینے کی امنگیں پیدا ہوں گی۔پھر تو کوئی سرحدوں کے پار سے میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکے گا۔اگر نوجوان نسل ایسے جذبات سے سرشار ہو گی تو ہمہ قسم منشیات سے خودبخود پرہیز کرے گی۔
کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے۔صبح صبح مسلم عوام بوڑھے جوان خواتین میدانوں اور سڑکوں پر سیر کرتے اور مختلف ورزشیں اور دوڑیں لگاتے نظر آئیں گے۔کوئی مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان دن رات وقت کاٹنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔اگر اسلحہ عام کرڈالا جائے تو یہی نوجوان رات کو خود بخود پہرا کمیٹیاں بنا کراپنے گلی کوچوں محلوں کی حفاظت کرتے نظر آئیں گے۔محنت ہی میں عظمت ہے اور محنت کش خدا کا دوست ہے کی طرح اگر ساری قوم محنت کو شعار بنا ڈالے تو پھر وارے نیارے ہو جائیں گے۔ملک کا 65فیصد سے زیادہ نوجوان مسلح ہو گیاتو غنڈہ گرد جتھوں لسانی عصبیتی گروہوں فرقہ پرست ملائوں کو بھی نانی کا دودھ یا د آجائے گا ۔ملک امن و سکون پاجائے گا۔یہ ضرور کوشش کی جائے کہ جس کا کم ازکم شناختی کارڈ بنا ہو یعنی بالغ فرد ہی مسلح ہو سکے۔
وزارت داخلہ صوبائی اور مرکزی کے پاس ان کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ موجود ہو۔غرضیکہ پورا ملک فوجی تربیت پاگیا تو سمجھ لیں کہ20کروڑ افراد کی فوج تیار ہو گئی۔ہماری لڑکے لڑکیاںاور ہماری بہنیں تک مسلح ہو گئیں تو بس مزا ہی آجائے گا۔کسی راہ چلتے کو لوٹنے کا تصور بھی نہ ہوسکے گا۔جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ میری معروضات پر کئی افراد خصوصاً حکومتی کار پردازوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کے جغادریوں خصوصاً مختلف صوبوں میں مقتدر حضرات کی بھنویں ضرور چڑھ جائیں گی بلکہ آنکھیں سرخ انگارے بن کرشعلہ بار ہونگی۔مگر میں کیا کروں میرے ملک کو دو لخت کرڈالا گیا۔اور میرے پاک وطن کی98ہزار افواج نے پلٹن میدان میں ہتھیار پھینک ڈالے کیا اسلامی یاکسی سیکولر ملک کی تاریخ میںا یسا کوئی واقعہ موجود ہے ہرگز نہیں۔مگر ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر۔اسی ڈگر پر چلنے پر مجبور تو کیا عادی ہوچکے ہیں۔کسی ظالم تھپڑ مارفرد کے آگے دوسراگال کر دینے کا جواز صرف عیسائیوں نے اپنے مذہب کو تو ڑ مروڑ کر نکال رکھا ہے۔
مسلمان تو ظلم کیخلاف تیغ براں ہوتا ہے۔نہ کہ بزدل اور نکھٹوجو ظلم سہتا رہتا ہے۔اور نہ خود بولتا ہے اور نہ ہی بولنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ کس مٹی کا مادھو ہے جس مٹی سے فصلیں کھاتا ہے اِس مٹی کا وفادار بھی نہ ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو شوق آپ اپنی حالت بدلنے کا۔پرانی تدبیریں اب ختم کرو ادھر مسلح افواج پولیس اور دیگر انتظامی عہدیدار تو جہ فرمائیں ہی نہیں بلکہ میری تجاویز کو فوری عملی جامہ پہنائیں تو مزہ دیکھیں کہ پوری قوم میں خوشی کی لہرکیسے نہ دوڑ جائے گی۔ہر گھر سے ڈر اورخوف جاتا رہے گاایک زیور پہنی بچی خود اکیلی سفر کرسکے گی تو دینی اقدار بھی پروان چڑھیں گی۔ہم دنیا کا واحد طاقتور ترین ملک قرار پاجائیں گے ۔جدید اسلحہ کی فیکٹریاں لگائی جائیں جہاں دھڑا دھڑاسلحہ تیار ہووقت پر خدا کے حضور گڑ گڑائیںرزق حلال کی تلاش میں سر گرداں رہیںقوم خوشحال ہو ئی توبھو ک ننگ افلاس سے تنگ مفلوک الحال چہروں پر رونق واپس آ جائے گی۔انشاء اللہ۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری