لاہور (ویب ڈیسک) تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی، لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور دل کی دھڑکن تیز ہوا چاہتی ہے۔ آج جب رقمطراز ہوں تو شمالی وزیرستان میں ایک اور بارودی سرنگ کے دھماکے میں میرے دو جوان شہید اور تین زخمیوں کی خبر کے ساتھ اشکبار آنکھوں سے تین فوجی افسروں نامور کالم نگار امتیاز عالم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک جوان کو اعزاز کے ساتھ دفن کیے جانے کی خبر بھی تھی۔ گزشتہ ایک ماہ میں اس علاقہ میں سلامتی کے اداروں کے 12جوان شہید اور 38زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی علاقہ میں ایک فوجی پوسٹ پہ درجن بھر سے زیادہ معصوم شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اور انہی کے علاقے کے منتخب رہنمائوں علی وزیر اور محسن داوڑ کو گرفتار کیا گیا ہے اور نوجوانوں کے غصے کی آگ پر اور تیل ڈالا جا رہا ہے۔ اب پاک فوج کے جوان ہوں یا قبائلی نوجوان، ہیں تو اپنے ہی پھر ان میں ٹکرائو کسی کے مفاد میں نہیں۔ یہ جو بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں، نہیں دیکھ پاتیں کہ اُن کے ہاتھوں لقمۂ اجل بننے والا وردی میں ہے یا عام قبائلی۔ بارودی سرنگیں طالبان نے بچھائی تھیں اور سرکار نے بھی، جنہیں صاف کرتے کرتے ریاست بھی نڈھال اور عوام بھی برباد ہوئے جاتے ہیں۔ ابھی اور بہت سی بارودی سرنگیں ہیں جو پھٹنے کو ہیں یا پھر ہم خود ایسی بارودی سرنگیں ایستادہ کرنے جا رہے ہیں تو اُنہوں نے بھی ایک روز پھٹنا ہے اور پھر جانے کیا کیا ہو، کسے خبر؟ خبر تو یہ بھی ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے 27ایکشن پلانز میں سے 18ایریا میں ہماری کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے خلاف مزید موثر اقدامات پر زور دیا ہے۔ اب اس کا فیصلہ ستمبر میں ہوگا کہ ہم گرے لسٹ سے باہر ہوتے ہیں یا اس میں پھنسے رہتے ہیں یا پھر بلیک لسٹ ہو جاتے ہیں۔ آج ہی آپ کے ہاتھوں میں پاکستان کے 2018-2019کے اقتصادی جائزے کی ضخیم رپورٹ ہوگی اور آپ کے دل و دماغ کو بڑا دھچکا لگا چکی ہوگی۔ اس رپورٹ کے مطابق مجموعی قومی ترقی کی نمو سال بھر میں آدھی رہ گئی ہے اور مشیرِ خزانہ ٹیکنو کریٹ حفیظ شیخ کے مطابق اگلے بجٹ میں معاشی نمو بڑھانا ہدف نہیں ہے۔ مالی و مالیاتی مشکیں کسنا اصل مقصد ہے۔ تحریکِ انصاف کے دو منی بجٹ آئے اور کسی افاقے کا باعث نہ بن سکے۔ صنعتی پیداوار منفی اور زراعت میں بڑھوتری ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ کپاس، گنا اور چاول کی پیداوار ہدف سے بہت کم رہیں۔ بیروزگاری، افراطِ زر، مہنگائی اور کساد بازاری اس اقتصادی جائزہ کی تکلیف دہ جھلکیاں ہیں۔ اور جب تین ماہ کے بعد اس جائزے کا جائزہ ہوگا تو عمومی معاشی تصویر اور بگڑی ہوئی پائی جائے گی۔ رہی سہی کسر یا کڑاکے اگلے روز کے بجٹ میں نکل جائیں گے۔ 5500ارب روپے کے ٹیکس لگیں گے، استثنائیں ختم ہوں گی، ترقیاتی پروگرام کٹوتی کی نذر ہوں گے، عوام کا مزید پیٹ کاٹا جائے گا اور حقیقی اُجرتیں اور تنخواہیں بظاہر کچھ بڑھائے جانے کے قوتِ خرید کم ہونے سے مزید کم ہو جائیں گی تو دیکھیے کیا رَن پڑتا ہے۔ تاجر شٹر ڈائون کریں گے، صنعتکار ہڑتالوں اور تالہ بندیوں کی جانب راغب ہوں گے، محنت کش اور نچلے ملازمین اُجرتوں کو دوگنا کرنے کے مطالبات لے کر سڑکوں پہ آئیں گے تو ’’تبدیلی‘‘ کی تبدیلی پہ ایک آفت ہے کہ ٹوٹ پڑے گی۔حالانکہ فوج اور سول حکومت ایک صفحہ پہ دکھائی پڑتے ہیں اور خیر سے تمام اہم محکمے محفوظ ٹیکنو کریٹک ہاتھوں میں دے دیئے گئے ہیں، لیکن پھر بھی غلطیاں کرنےکا شوق ہے کہ کم ہونے کو نہیں۔ عدلیہ کا تحرک کم ہوا ہی تھا کہ جانے کیا سوجھی کہ حکومت کے اثاثہ جات کھوج نکالنے کے ایک بوالعجب نے جنرل مشرف کے نظریاتی وکیل اور وزیرِ قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل منصور خان کی معاونت سے ایک ریفرنس عدلیہ کے ایک بہت ہی معزز جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو اُکسایا اور صدرِ مملکت عارف علوی نے اپنا ’’آئینی فریضہ‘‘ ادا کرتے ہوئے اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس بھیج دیا۔ لہٰذا ملک بھر کی بار کونسلوں نے علمِ مزاحمت بلند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، وزیرِ قانون اور منصور خان کی نہ صرف بار کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ 14جون کو ملک بھر میں ہڑتال کی کال بھی دے دی ہے۔ اب 11جون کے بعد وکلاء، تاجر، صنعتکار، کاشتکار، مزدور اور نچلے درجے کے ملازمین اپنی اپنی مانگوں کے لیے میدان میں اُتریں گے۔ پھر دیکھیے کیا گھمسان کا رَن پڑے گا کہ کوئی نہ ہوگا جو بچا لے۔ ’’تبدیلی کی حکومت‘‘ تو پہلے ہی بہت سے قومی اور اہم ترین معاملات سے دستکش ہو چکی ہے۔ اب اگر عوام، وکلاء، صحافیوں، دانشوروں، محنت کشوں اور صنعتکاروں کی جائز شکایات پہ کان نہیں دھرے گی تو ’’تبدیلی آئی رے‘‘ کے بجائے کہیں ’’تبدیلی بھاگی رے‘‘ نہ ہو جائے۔ بکھری ہوئی اپوزیشن بھی انگڑائیاں لے رہی ہے، اسے بنا بنایا میدان مل رہا ہے۔ لیکن وہ ابھی بھی ڈرتی ہے کہ اس لولی لنگڑی اور دُم کٹی جمہوریت کی گاڑی پھر سے کہیں پٹری سے نہ اُتر جائے، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ دس سالہ عبوری جمہوری دور کے چھکڑے کو اُلٹا دیا گیا ہے۔ غالباً ابھی اپوزیشن کا عمران خان کی حکومت کو اُلٹانے کا ارادہ نہیں کہ مشکل کا ڈھول وہ اپنے گلے میں کیوں ڈالے اور خان صاحب کو پھر کنٹینر پر چڑھنے کا موقع کیوں دے۔ وہ اپنے شکار کو آہستہ آہستہ قسطوں میں تھکا تھکا کر ادھ موا کرنے کی جانب راغب ہوئی لگتی ہے، بھلے مولانا فضل الرحمٰن کیسی ہی جلدی میں ہوں، اُن کی تیزی کو روکنے کے لیے شہباز شریف کی واپسی کافی ہوگی۔ اپوزیشن فی الوقت اتنا ہی چاہے گی کہ حکومت اُسے دیوار سے لگائے رکھنے کی ہٹ دھرمی چھوڑے اور وہ وفا شعار حزبِ مخالف کے طور پر ’’تبدیلی‘‘ کے غبارے سے ہوا نکلتے ہوئے دیکھے۔ ایسے میں نہیں لگتا کہ عمران خان اپنی ضد چھوڑیں گے۔ اُن کے پاس حزبِ اختلاف کو مطعون کرنے اور احتساب کا راگ الاپنے کے علاوہ بچا ہی کیا ہے۔ مسئلہ حکومت گرانا نہیں، نظام کو بہتر بنانا ہونا چاہئے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی!