کسی فلاحی اورتہذیب یافتہ معاشرے کابنیادی وصف یہی ہے کہ وہاں جنریشن گیپ نہیں ہوتا بڑوں سے لیکر چھوٹوں تک سب خود اعتمادی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کاتعین اوران کی پاسداری کرتے ہیں علوم وفنون آنے والی نسلوں کو آسانی سے منتقل ہونےاوران کی تجدید کاعمل جاری وساری رہتا ہے ایسی قومیں ناقابل تسخیر اوردنیا کی نظروں میں باعزت ہوتی ہیں۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعرات کے روز نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے دورے کے موقع پر بین الاقوامی رینکنگ میں یونیورسٹی کے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے پروقار اورپرہجوم تقریب سے اپنے خطاب میں بجا طور پر نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی بہتری کے لئے کوشاں رہیں اور خود سوچیں کہ ملک کی بہتری کےلئے وہ کیا کرسکتے ہیں۔قوم کے سپہ سالار کے یہ الفاظ یقیناً مصور پاکستان اوربانی پاکستان کے اس وژن اورسوچ کے آئینہ دار ہیں جس کے تحت مملکت خداداد پاکستان وجود میں آئی اورآج یہ دنیا کے نقشے پرایک ایٹمی،صنعتی،تجارتی اورعظیم ترروایات کے حامل ہونے کی شناخت رکھتی ہے۔آج پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد ملک کی کل آبادی کے 60فیصد سے بھی زیادہ ہے اورایسی قومیں خوش نصیب ہوتی ہیں جس میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان اورہنر مند موجود ہ ہوں اوروہ خود اعتمادی کے ساتھ اپنے اور ملک وقوم کے بہتر مستقبل کاتعین کرنے کے قابل ہوں۔آج افراتفری کے دورمیں اکثر گھرانوں کے نوجوانوں کے پاس بڑوں کےلئے اور بڑوں کے پاس چھوٹوں کے لئے وقت کا فقدان ہے ان حالات میں نسلوں کے درمیان فاصلے بڑھنا ایک منطقی بات ہے۔آج اگر بڑوں نے نوجوان نسل کی راہنمائی کے لئے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو اس بات کااحتمال ہے کہ معاشرے میں جنریشن گیپ کے ساتھ ساتھ دومتوازی معاشرے جنم نہ لے لیں۔