(کچھ دوستوں کی یہ خواہش ہے کہ میں مکہ اور مدینہ کے سفر کو الفاظ کی صورت میں قلمبند کروں۔ اگرچہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس کیفیت کی منظر کشی کے لئے الفاظ بے بس ہیں۔)ایک خواہش جس نے شعور کے ساتھ ارتقا کی منازل طے کیں یہ تھی کہ خدا کا وہ گھر جسے دو عظیم الشان پیغمبروں نے حکم خداوندی کے تحت تعمیر کر کے اس کے نام سے آباد کیا اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ اس مقدس شہر کی خاک کو سرمہ چشم بصیرت بنائوں جس کے باسیوں نے اپنوں کے ستائے دکھی اور مظلوم پیغمبر کے لیے دیدہ و دل وا کیے۔مالک کائنات نے در رحمت سے اذن سفر کی ندا دی تو اپنی بلند بختی پر یقین نہ آیا۔ کہاں میں اور کہاں وہ نور سے مزین درودیوار؟ ۶ سے ۱۴ مئی تک کا یہ سفر خوشبو کا سفر محسوس ہوا۔ برستی آنکھوں، کپکپاتے ہونٹوں، لرزتے قدموں، ندامت سے جھکی پیشانی کے ساتھ اک نظر بیت اللہ پر ڈالی تو گویا کائنات تھم گئی۔ جو کہنا تھا بھول گیا، جو مانگنا تھا یاد نہ رہا، بس عالم بے خودی تھا، الفاظ گونگے تھے محسوسات بے بس تھے، بن مانگے ہی سب کچھ پا لینے کا احساس تھا۔ہر نسل، ہر رنگ، ہر مسلم ملک سے آنے والے بچے، بوڑھے، جوان ایک ہی جذبے سے سرشار، ایک ہی پکار کے ساتھ بیت اللہ کے گرد یوں دیوانہ وار چکر لگا رہے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ کیا روح پرور منظر تھا کہ لوگوں کے جم غفیر میں بیت اللہ تک رسائی ناممکن محسوس ہوتی مگر جو اس دائرے میں آ جاتا اللہ کی رحمت سے بیت اللہ تک پہنچ جاتا۔ رکن یما نی، حجر اسود، میزاب رحمت، مقام ابراہیم ہر مقام نور کا پیکر تھا۔صفا مروہ کی سعی کے دوران حضرت ہاجرہ کی بے قراری اور تڑپ دل کی دیواروں پہ دستک دیتی رہی۔ مکہ کی فضا میں اللہ کا رعب، عظمت اور جلال محسوس ہوتا ہے تو اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والوں کی ایک ایک ادا کے اس بارگاہ میں انمول دام لگتے ہیں۔ ان کا مرتبہ اللہ کریم اتنا بلند کرتے ہیں کہ ساری کائنات مل کر بھی اسے نہیں پا سکتی۔مکہ مکرمہ میں تین دن کے مختصر قیام کے بعد سفر مدینہ پاک کا آغاز ہوا تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ ردائے شوق اوڑھ کر کوئے محبوب میں قدم رکھا تو ہر گلی کو سراپا خوشبو پایا۔ یہ خوشبو انصار کی محبت، جانثاری اور وفاداری کی تھی۔ ہر قدم پر یہ احساس ہوتا کہ یہ مٹی کتنی خوش نصیب ہے؟ان درودیوار کی عظمت کا کیا کوئی ثانی ہو سکتاہے؟جہاں اس ہادی اعظمﷺ کے نقش پا ثبت ہوئے جس نے عالم کو ہدایت کی راہ دکھائی۔ جہاں آپﷺ نے اپنے جانثاروں کے ساتھ نمازیں ادا کیں۔ جہاں دربار رسالتﷺ لگتا اور فیصلے ہوتے۔ جہاں نبی رحمت ﷺکے اردگرد ابوبکرؓ و عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ ہوتے جو چہرہ نبوت کو ایک بار تکتے تو سو سو بار نثارہوتے۔دربار نبوتﷺ کا تمام نقشہ خیالوں میں سجائے روضہ رسولﷺ پر حاضری دی تو تحفے کے لئے کچھ نہ تھا سوائے درودوسلام کی مالا کے جسے آنسووں کی لڑی میں پرو کر اس شہنشاہ کونین کی نذر کیا جس نے دنیا کو جینے کا سلیقہ اور طریقہ دیا۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس کی سادگی درس بصیرت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہےروضہ رسول پر سلام پیش کرتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ وہ مہربان اور شفیق پیغمبرﷺآنسووں کی کہانی سے ہماری محبت، عقیدت اور دل کے ہر دکھ کو جان کر دست رحمت سے مسیحائی کر رہے ہوں۔ مسجد نبویﷺ، مسجد قبا، مسجد ذو قبلتین، جامع خندق، سبع مساجد، مسجد بلالؓ اور وہ مسجد جہاں آپﷺ نے جنگ بدر کی رات حق کی بقا کے لئے اللہ سے مدد طلب کی، ہر مسجد میں جا کر خدا کی رحمت کے قریب ہونے کا احساس ہوا۔ طویل مسافت، ناکافی سامان رسد، تین سو تیرہ کی قلیل جماعت بمقابلہ تین ہزار یہ میدان بدرتھا۔بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشقبلاشبہ یہ عشق رسول ہی تھا جس نے فتح و شکست کے معیار کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ کوہ احد آج بھی اسی شان، عظمت اور جلالت سے کھڑا ہے اور وہ پہاڑی درہ جہاں پیغمبر اعظم ﷺنے صحابہؓ کی ایک جماعت کو ہر حال میں جمے رہنے کا حکم دیا تھا آج بھی یہ راز عیاں کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اصل کامیابی پیغمبر عربی ﷺکی اطاعت ہے۔ تلاش حق میں نکلنے والے حبشی غلام حضرت سلمان فارسیؓ کے اس باغ کی زیارت کی جس میں آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے کھجورکے پودے لگائے۔ وہ جگہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔مدینہ طیبہ میں ان گنت مقامات زیارت ہیں جن کے ساتھ اس عظیم پیغمبرﷺ کی یاد وابستہ ہے جس نے ایک مہاجر کی حیثیت سے یہاں قدم ر نجہ فرمائے، دس سال تک حکومت کی اور دنیا کو حکمرانی کے لازوال اصول سکھائے۔ اس طرز حکمرانی، انصار و مہاجرین کی جانثاری، اخوت و محبت کے اثرات کی بناء پر مدینہ پاک کے کوچہ و بازار میں آج بھی ٹھنڈک، سکون اور محسوس کی جانے والی خوشبو ہے۔ اذان کی صدا بلند ہوتی ہے تو کوچہ و بازار سنسان اور مساجد آباد۔ ۔ ۔ ۔ نبیﷺ کے دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مسجد نبوی ﷺ سے بلند ہونے والی اللہ و اکبر کی صدا اذان بلالیؓ کی یاد دلاتی ہے۔اللہ کے گھر سے نبیﷺ کے در اور پھر بیت اللہ کی حاضری سے واپسی کے سفر کے تمام محسوسات کو الفاظ میں بیان کرنے کی سعی کی جائے تو داستان بہت طویل ہو جائے مگر پھر بھی نامکمل رہ جائے۔ جو مسلمان نہیں جا پاتا وہ دیکھنے کے لیے تڑپتا ہے اور جو ایک بار حاضری کی سعادت حاصل کرے وہ پھر سے اس در کی زیارت کے لیے بے قرار رہتا ہے، یہی اس گھر کا اعجاز ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ایمان کی دولت کے ساتھ اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائے۔ آمین۔