اس وقت سعودی عرب ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف وہ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثرورسوخ سے خائف ہےتودوسری طرف یہ خطرہ اسے اپنی سرحد تک پہنچتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر فائر کیا جانے والا میزائل ہے۔ گو اس میزائل کو ریاض میں مار گرایا گیا مگراس حملے نے دونوں ممالک(سعودی عرب اور ایران) کے درمیان سالہا سال سے جاری سرد جنگ کو پھر سے گرما دیا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جنہوں نے وزیر دفاع کا قلم دان سنبھالنے کے فوراً بعد یمن کے خلاف جنگی مہم کا آغاز کیا تھا تاحال باغیوں کے ہاتھوں سے (یمن کے دارلحکومت) صنعاء کا کنٹرول واپس یمن کے صدر عبد ربہ منصورھادی کو دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔ اور وہ اس ناکامی کی ذمہ داری ایران پر عائد کرتے ہیں جو حوثی باغیوں کو یمن میں اسلحے کی فراہمی یقینی بنا رہا ہے۔ جس کی بدولت اب تک صنعاء اور یمن کے شمالی علاقوں پر ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کا کنڑول بدستور برقرار ہے۔ لہٰذا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن بھی (شام اور لبنان کی طرح) ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری ایک پراکسی کا حصہ بن چکا ہے۔ جس کے نتائج وہاں پر انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کی صورت میں نکل رہے ہیں نیزاس سعودی اتحاد کی ناکہ بندی سے یمن قحط کا شکار ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کی مطابق یمن میں گزشتہ سال سعودی اتحاد کی کارروائیوں کے نتیجے میں کم از کم 700 بچے جاں بحق یا زخمی ہوئے ہیں جو کہ باعثِ تشویش ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد جن کے دور میں ایران سعودی عرب تعلقات میں بہتری کے امکانات نظر آنا تو دور بلکہ سعودی حکام کی جانب سے معروف شیعہ عالم نمر النمر کی سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد سے مزید کشیدہ ہیں۔ اوراتنا ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات پر وار کرنے کے لئے شام ،یمن اور لبنان میں مخالف دھڑوں کی سرپرستی میں بھی مگن ہیں۔
ایران کے علاوہ قطر سے بھی سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کوئی دوستانہ نہیں سمجھے جاتے۔ بلکہ قطر کے خلاف بھی سعودی عرب نے اقتصادی محاذ کھول رکھا ہے حالانکہ قطران کے لئے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ ان کا ‘الجزیرہ چینل’ ہے۔ جس کی عربی سروس سے وہ خار کھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، سعودی عرب اور اس کے اتحادی اماراتی حکمرانوں کی نظر میں 2022ء میں قطر میں منعقد ہونے والا فٹبال کا ورلڈ کپ اور قطر کا مغربی ممالک میں مشہور مقامات کا حصول ہی وہ چند چیدہ چیدہ عوامل ہیں جو ریاض اور دوحہ کے مابین حالیہ تلخی کا باعث ہیں۔
قطرمیں اس بے نتیجہ اور یمن میں نقصان دہ فوجی کاروائیوں کے پسِ پردہ کار فرما رہنے کے باوجود سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نوجوان نسل میں ایک رول ماڈل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور ان کی اس وجہ شہرت کے پس پردہ عوامل میں انسداد بد عنوانی کی مہم اور سرکاری اداروں میں بہت سارے غیر مؤثراور بزرگ افراد کی جگہ مغرب سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی ٹیکنو کریٹس کی صورت میں حالیہ بھرتیاں بتائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں، شہزادہ محمد نے’کونسل آف اکنامک اینڈ ڈیولیپمنٹ افیئر’ کے صدر کی حیثیت سےاپریل 2016ء میں ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی اصلاحات کے متعدد پروگرام (وژن 2030ء کے نام سے) متعارف کرائے جن کا مقصد سلطنت کا انحصار تیل سے حاصل ہونے والی آمدن پرکم کرنا ہے۔
لہٰذا توانائی سے متعلق ان کی یہ عالمی پالیسی سازی اور اس کے نفاذ اور تیل کے ختم ہو جانے کے بعد ریاست کے مستقبل سے متعلق منصوبے بھی اس نوجوان سعودی ولی عہد کی عوام میں بے پناہ پذیرائی کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ ماہرین و مبصرین کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کی قدامت پسند مذہبی اسٹیبلشمنٹ پر قدغن لگانے کی ممکنہ پالیسی ان کے لئے کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ واشنگٹن اور ٹرمپ انتظامیہ تو اس کے داعی ہے مگر سعودی عرب کے قریبی اتحادی ممالک کو یہ ناگوار گزرنے کا اندیشہ ہے۔
اِدھر سعودی عرب کی اندرونی سیاست بھی بھونچال کا شکار ہے جہاں بظاہر انسداد دہشت گردی کے تحت درجنوں ارب پتی شہزادوں اور 38 موجودہ اورسابق وزراء اور نائبین اور سرمایہ کاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ یہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے امور سلطنت میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے سلسلے میں ملک کے اندد اور باہر لئے جانے والے اقدامات کی سب سے مضبوط کاوش سمجھی جا رہی ہے۔ بتیس سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ان اقدامات کو جہاں بعض حلقوں میں سرکاری سطح پر بد عنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن کے طور پر ایک اہم سنگ میل عبور کرنے کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ وہیں ان کے متعدد ناقدین کے مطابق گرفتار شدگان کا خاندانی اورکاروباری پس منظر اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کو اپنے سیاسی نظریات اور خاندانی پس منظر کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ سعودی شہزادے جتنی کثیر تعداد میں اہم سرکاری اور کاروباری عہدوں پر فائز ہیں یہ ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں کوئی بھی غلط یا صحیح کاروباری سرگرمی ان شہزادوں کو خاطر میں لائے بغیر انجام پذیر ہو سکے۔ لہٰذا گرفتار شدگان کی فہرست سے یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ اس سے شہزادے محمد بن سلمان کا ہدف سعودی تخت کے حصول کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹیں ہٹانا ہو سکتا ہے۔ مثلاً سابق فرمانروا شاہ عبداللہ کی باقیات اور ان کی سوچ کو شاہی محل سے بے دخل کرنے کے لئے ان کے بیٹے اور بعض قریبی ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ محمد بن سلمان کے پاس اس قدر اختیارات ہیں کہ وہ کبھی بھی کسی بھی شخص (جس پر بھی بدعنوانی کا شبہ ہو) کو نہ صرف حراست میں لے سکتے ہیں بلکہ اس کے سفر کرنے پر پابندی عائد کر سکتے ہیں اور ان کی جائیداد بھی ضبط کر سکتے ہیں ۔
بلاشبہ شہزادہ محمد کی ترقی کا سفر حیران کن ہے اورایران اسے ‘سافٹ کو’ کے نام سے موسوم کرتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں اس کم عمراورغیر آزمودہ شہزادے کو ولی عہد بنانے سے جہاں سعودی عرب کے جانشینی کا رائج ‘ قدیم سلسلہ’ متاثر ہوا ہے وہیں شاہ سلمان کو محض اپنے بیٹے کی تخت تک رسائی ممکن بنانے کے لئےاپنے سوتیلے بھائی اور بھتیجے کو راستے سے ہٹانا پڑا۔ لہٰذااب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آسانی سے بادشاہ بن سکتے ہیں اور اگلی نصف صدی تک حکمرانی کر سکتے ہیں۔
محمد بن سلمان کے مطابق اگر 21 ویں صدی میں سعودیوں کو کامیاب قوم کے طور پر رہنا ہے تو انہیں ملک کی جدید طرز پر اصلاح کرنی ہو گی۔ رشوت سے پاک نیا کاروباری نظام متعارف کرانا ہو گا جس میں کسی بھی کام کےعوض خطیررقم بطورِ تحفہ پیش کرنے جیسی فرسودہ سعودی روایات کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ اس لئے بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق محض سعودی ریاست کو انتہا پسندی کی تاریکیوں سے نکالنے اور روشن خیال اوراعتدال پسند ی کے راستے پر گامزن کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کے لئے محمد بن سلمان نے ملک کے(اختیارات کے حامل) تمام اہم مناصب کو اپنے قابو میں کر لیا ہے اور اسی کے تحت حال ہی میں سعودی خواتین کو پہلی بار تاریخ میں ڈرائیونگ کے بعد اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
جہاں تک شہزادے محمد کی انسدادِ بد عنوانی کی مہم کا تعلق ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا اس نے ایک اعتدال پسند سعودی عرب کا راستہ ہموار کیا ہے یا پھر وہ بندھن ٹوٹنا شروع ہو گیا ہے جس میں پورا ملک بندھا ہوا تھا۔ مگر شہزادے محمد کےجدید اصلاحاتی پروگرام کے تحت سنیما اور دیگر مغربی طرز کی تفریحات کے متعارف کرانے پرسعودی عوام کا ردعمل منفی آنے کے قوی خدشات موجود ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد اپنے ملک کے مستقبل سے متعلق وژن کے راستے میں آنے والی کسی بھی چیز یا شخص کو ہٹانے میں آہنی بے رحمی کا مظاہرہ کرنے پر مضر معلوم ہوتے ہیں۔
اُدھر مشرقِ وسطیٰ کے امن کو لاحق سعودی عرب، ایران چپقلش سے متعلق خطرات کے مکمل تدراک کے لئے پاکستان بھی سرگرم ہے۔ چونکہ حوثی باغی بھی ایران کے علاوہ ایسی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں جو ایران اور سعودی قربت کے خلاف ہیں۔ لہٰذا اس ضمن میں اسلامک ملٹری الائنس کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا کردارنہایت اہم ہےجو وہ عرب اسرائیل جنگ سے بچنے کے لئے ریاض میں بیٹھ کر ادا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاک فوج کے موجودہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے ایران کے دورے کے دوران ایرانی عسکری اور سول قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئےان کو باور کرایا ہے کہ پاکستان کے نزدیک ایران اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ممالک کے طور پر یکساں حیثیت رکھتےہیں۔ اور پاکستان ہرگز ان کے مابین خلیج کو اور گہرا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ جہاں یہ بات پوری امتِ مسلمہ کے لئے اطمینان بخش ہے وہیں یہ امریکہ اور اسرائیل کے لئے باعث تشویش ہے کیونکہ اگر سعودی عرب ایران کے خلاف کسی بھی محاذ آرائی میں امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کو تیار ہو جاتا ہے تو اسرائیل اور امریکہ کو ایران کے خلاف نصف سے زائد مسلم برادری کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر سعودی عرب اورایران ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں تو امریکہ مسلم دنیا میں نہ صرف تنہا رہ جائے گا بلکہ اس صورت میں ایران پر امریکہ کی جانب سے حملے کی کوئی حمایت بھی نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں، عرب ایران اتحاد کی صورت میں شام و عراق میں بھی امن قائم ہو جائے گا۔ اور یوں سعودی عرب کے ہاتھوں امریکہ کااربوں مالیت کا اسلحہ بھی بکنا بند ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ خام تیل کی وہ سپلائی لائن بھی منقطع ہو جائے گی جو عرب ریاستوں سے ہو کر امریکہ تک جاتی ہے اور جوامریکہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے امریکہ اس تمام منظرنامے میں اپنا مستقبل غیر محفوظ دیکھ رہا ہے جس کے باعث اس وقت امریکہ سعودی عرب کو اپنے کیمپ میں رکھنے کے لئے ہر حربہ بروئے کار لانے پر مجبور ہے۔ لہٰذا سعودی عرب سے امریکہ مخالف لوگوں کی گرفتاریاں اور اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں بتدریج بہتری بھی امریکہ کے انہی مذموم مقاصد کی تکمیل کی کڑیاں ہیں ۔ جس کی مثال حال ہی میں مسجد نبوی میں ایک اسرائیلی باشندے کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر ہے جس نے تمام سیاسی اور مذہبی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔