تحریر : میاں نصیر احمد
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریش عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا اس خاندان کی شرافت ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دین حنیف کہتے ہیںانسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں معاشرہ کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔
اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے دنیا بھر کے اندھیرے چھٹ گئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری دنیا کیلئے رحمت کا پیغام لیکر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پر اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہو گئیحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی اپنی مختصر مدت تبلیغ کے دور ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے ا’سوہ حسنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمارے لیے بہترین نمونہ نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوئہ مبارکہ اور سیرت طیبہ کے متعدد گوشے ہیں جن میں سے ہمارے نزدیک اہم ترین دین اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اس کی سربلندی کے لیے جدوجہد ہے یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے دنیا بھر کے اندھیرے چھٹ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے دنیا بھر کے اندھیرے چھٹ گئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری دنیا کیلئے رحمت کا پیغام لیکر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پر اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہو گئے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کیلئے رحمت للعالمین بن کرتشریف لائے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل دنیاوآخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیںکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنی جگہ پر آئی اور اپنے شوہر کو دکھایاتو وہ بھی آپ کے جمال مبارک پر عاشق ہو گئے اور سجدہ شکر ادا کیا وہ اپنی اونٹنی کے پاس گئے دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں عورتوں نے مجھ سے کہا اے بنت ذویب ہی جانور ہے جس پر سوار ہو کر ہمارے ساتھ آئی تھیں جوتمہارے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتا تھا اور سیدھا ہل تک نہ سکتا تھا میں نے جواب دیا خدا کی قسم یہ وہی جانور ہے اور یہ وہی دراز گوش ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اس فرزند کی برکت سے اسے قوی و طاقتور کر دیا ہے اس پر انہوں نے کہا خدا کی قسم اس کی بڑی شان ہے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے دراز گوش کو جواب دیتے سنا کہ ہاں خدا کی قسم میری بڑی شان ہے مجھے زندگی عطا فرمائی میں لاغر و کمزور تھا مجھے قوت و توانائی بخشی اے بنی سعد کی عورتو تم پر تعجب ہے اور تم غفلت میں ہو اور تم نہیں جانتیں کہ میری پشت پر کون ہے میری پشت پر سید المرسلین خیرالاولین والآخرین اور حبیب رب العٰلمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمہے حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ راستہ میں دائیں بائیں میں سنتی کہ کہتے اے حلیمہ تم تونگر ہو گئیں اور بنی سعد کی عورتوں کی تم بزرگ ترین ہو گئیں اور بکریوں کے جس ریوڑ پر میں گزرتی بکریاں سامنے آ کر کہتیں اے حلیمہ تم جانتی ہو کہ تمہارا دودھ پینے والا کون ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آسمان و زمین کے رب کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام بنی آدم سے افضل ہیںہم جس منزل پر قیام کرتے حق تعالٰی اس منزل کو سرسبز و شاداب فرما دیتا باوجویکہ وہ قحط سالی کا زمانہ تھا اور جب ہم بنی سعد کی بستی میں پہنچ گئے تو کوئی خطہ اس سے زیادہ خشک و ویران نہ تھا لیکن میری بکریاں چراگاہ میں جاتیں تو شام کو خوب شکم سیر تروتازہ اور دودھ سے بھری ہوئی لوٹتیں تو ہم ان کا دودھ دوہتے اور ہم سب خوب سیر ہو کر پیتے اور دوسروں کو پلاتے ہماری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کہ تم اپنی بکریوں کو ان چراگاہوں میں کیوں نہیں چراتے جس چراگاہ میں بنت ابی ذویب کی بکریاں چرتی ہیں۔
حالانکہ وہ اتنا نہیں جاتے کہ ہمارے گھر میں یہ خیرو برکت کہاں سے آئی ہے جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی انہیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوہ حسنہ اور شخصیت مقدسہ کو فکری علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا الغرض اخلاق حسنہ کا نمونہ کامل اور پیکر بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات خلق اور افق انسانیت پر ظہور پذیر ہوبدلہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اخلاق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے کاموں کا بدلہ برے کاموں سے نہیں دیتے برائی کو برائی سے رد نہیں کرتے بلکہ برائی کو اچھائی کے ساتھ رد فرمانے والے ہیں یہ آقا علیہ السلام کی وسعت اخلاق وسعت ظرف عظمت شفقت اور عظمت رحمت کا ایک اظہار ہے جس سے روشنی لینے کی ضرورت ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام ایک مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گلے میں ایک کھردری سی سخت قسم کی چادر لپیٹی ہوئی تھی ایک اعرابی آیا اسے کچھ طلب تھی اس نے اپنی نادانی و جہالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادرکو پکڑ کر اس شدت سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک پر اس کا زخم آگیا چادر کھینچ کر کہنے لگا یا اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محتاج ہوں میرے گھر والے بھی بھوکے ہیں۔
پریشان ہیںمیں دو اونٹ لایا ہوںمیرے دونوں اونٹوں کو غلے اور اناج سے بھرکر مجھے واپس بھیجئے اس کے اس اندا ز طلب کے باوجود آقا علیہ السلام کے چہرہ انور پر ملال اور رنجیدگی کے اثرات نہیں آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بندے سب مال اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوںاپنے مسلمان بھائیوں سے میری گذارش ہے کہ حضرت محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت یہ ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں اور سنت پر عمل کریں انسان ہونے کے ناتے ہم میں سے کوئی بھی خطا سے مبرا نہیں اگر اس تحریر میں زبر زیر ،پیش یا کسی اور الفاظ کی غلطی ہو گئی ہو تو رب کے حضور معافی کاطلب گارہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر : میاں نصیر احمد