آج سے تقریبا ً سوا چودہ سو سال قبل تمام دنیا پر ظلم و جبر اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ‘اہل فارس آگ کی پوجا اور مائوں کے ساتھ وطی کرنے میں مصروف تھے ‘ترک شب و روز انسانی بستیوں کو تباہ برباد کر رہے تھے ‘بندگان ِ خدا شدید اذیت میں مبتلا تھے اِن کا دین بتوں کی پوجا اورکمزور بے بس انسانوں پر ظلم کرنا تھا۔ ہندوستان کے لوگ بتوں کی پوجا اور خود کو آگ میں جلانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے ‘نیوگ جیسی انتہائی پست رسم کو جائز سمجھتے تھے یہ عالمگیر ظلمت اِس امر کی متقاضی تھی کہ ایک مسیحا ِاعظم اور ہادی تمام دنیا کے لیے مبعوث ہو اِس کے لیے خالقِ کائنات نے عرب کی سر زمین کو چنا اُس وقت سر زمین عرب تمام برائیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔
اہل عرب میں ہر طرح کی برائی موجود تھی’ عرب میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے رہتے جہاں پانی اور سبزہ نظر آتا وہیںڈیرہ جما لیتے ‘چارہ ختم ہوتا تو خیمے سمیٹ کر آگے چل دیتے تھے یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ منظم شہر اور دیہات بہت کم تھے لوگوں کا آپس میں میل جول نہ ہونے کے برابر تھا اور نہ ہی کوئی با قاعدہ مضبوط حکومت تھی ۔اِن حالات میں طاقت ور کا راج تھا مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا’ طاقت ور اپنی طاقت کے زور پر اپنی مر ضی کرتا اور کمزور طبقہ طاقتوروں کی غلامی پر مجبور تھا۔ زیادہ تر قبائلی سسٹم تھا ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع ہو تا جو برسو ں تک چلتا لڑائیوں میں بے شمار لوگ مارے جاتے غالب قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیتا ۔شراب اور جوا کی لت عام تھی شراب پی کی سرِ عام فحش باتیں کی جاتیں ۔ خود پسندی ، تکبر و غرور اتنا زیادہ تھاکہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے عرب بہت زبان آور تھے ان میں کئی بڑے شاعر بھی تھے لیکن اُن کی یہ خوبی بھی برائی میں کام آرہی تھی بے ہودہ اشعار کہے جاتے عورتوں کا نام لے کر فحش شاعری اور کہانیاں بیان کی جاتیں اگر کسی کے گھر بیٹا پیدا ہو تا تو خوب خوشیاں منائی جاتیں۔ لیکن اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو اس کو زندہ دفن کر دیا جاتا بیٹی کا سوگ منا یا جاتا جس کے گھر بیٹی پیدا ہوتی وہ اپنا منہ چھپا تا پھرتا۔
آپس کی لڑائیوں میں دشمنوں کو زندہ جلا دیا جاتا ۔ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے جاتے بچوں کو خنجروں اور تلواروں سے بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ۔ غرض کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ تھی ‘معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ عورتیں تھیں عورتوں کی حالتِ زار بہت ہی قابل ِ رحم تھی عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا ۔ جانوروں کی طرح عورتوں کو سر عام منڈیوں میں نیلام کیا جاتا ۔ لڑکیوں کو اِس خیال سے کہ جب بڑی ہونگی تو اِن کی شادی کرنا پڑے گی پیدا ہوتے ہی بچیوں کو مار دیا جاتا اکثر میاں بیوی میں نکاح کے وقت ہی یہ معاہدہ طے پا جاتا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اُس کو زندہ دفن کر دیا جا ئے گا مرد و عو رت کے اختلاط کی انتہائی گھٹیا صورتیں تھیں۔
جنہیں بد کاری و بے حیائی ، فحش کاری اور زنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا تھا ۔ نکاح کی چار مختلف صورتیں تھیں ۔ ایک صور ت تو آج جیسی تھی جبکہ باقی تین صورتیں صرف فحاشی اور زنا کاری پر مشتمل تھیں دو سگی بہنوں سے نکاح کرنے کی رسم عام تھی باپ کے وفات پانے پر بیٹا اپنی ماں کے علاوہ باقی سوتیلی مائوں سے نکاح کر لیتا اقتصاص طور پر عرب پورے دنیا سے پیچھے تھے تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات ِ زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی ۔کیونکہ زیادہ تر وقت آپس میں لڑائی جھگڑوں میں صرف ہوتا اِس لیے اقتصادی حالت بھی اچھی نہ تھی مردار کھانے کی عادت عام تھی عرب میں زیادہ تر لوگ حضرت اسماعیل کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراھیمی کے پیروکار تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس و نصیحت کا بڑا حصہ بھلا دیا ایک دفعہ اِن کے ایک سردار عمر و بن لحی نے شام کا سفر کیا تو وہاں پر بتوں کی پوجا کو دیکھا تو متاثر ہو کر واپسی پر اپنے ساتھ ہبل نامی بت بھی لے آیا اور لا کر اُسے خانہ کعبہ میں نصب کر دیا۔ عرب میں بت پرستی کا بانی یہی شخص تھا اِس نے اہلِ مکہ کو بت پرستی کی دعوت دی جس پر اہلِ مکہ نے لبیک کہا اِس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اِس بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا پھر وادی نخلہ میں عُزّیٰ نامی بت رکھا گیا یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے ۔اِس کے بعد عرب کے ہر خطے میں بتوں کی بھر ما ر ہو گئی جدہ میں بہت سارے مدفون بت نکالے گئے اور جب حج کا زمانہ آیا تو اُن بتوں کو مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا گیا اِس طرح ہر قبیلے اور پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت رکھ دیا گیا مشرکین نے خانہ کعبہ کو بھی بتوں سے بھر دیا گیا ۔ بیت اللہ کے گردا گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔
غرض شرک اور بت پرستی اہل ِ جاہلیت کے دین کا سب سے برا مظہر بن گئی ۔ مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے اُنہیں زور زور سے پکارتے ۔ مشرکین عرب کا ہنوں اور نجومیوں کی باتوں پر ایمان رکھتے مختلف ہڈیاں گھروں میں لٹکاتے ۔ بعض دنوں ، مہینوں میں جانوروں گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے بیماریوں اور چھوت کے بہت زیادہ قائل تھے ۔ روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے بڑے درختوں کی پوجا کرتے تھے ۔ بیماری کا علاج جادو منتر ٹونے ٹوٹکوں سے کرتے ۔ ہر طرف بد اخلاقی ، بے انصافی قتل و غارت کا دور دورہ تھا گویا عرب اور پوری کائنات اندھیر نگری بن چکی تھی بندگان خدا کے حقوق بری طرح پا مال ہو رہے تھے ۔ خالقِ کائنات کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب بھی انسانوں کی حالت زار آخری حدوں تک پہنچ جاتی ہے تو وہ کسی مسیحا کو بھیج دیتا ہے اور پھر کرہ ّ ارض کی سب سے قیمتی ساعت طلوع ہوئی رب کعبہ نے ایک ایسا مسیحا اِعظم بھیجا جس کی ایک جنبش چشم سے صدیوں سے بیمار اور پیاسی روحوں کو سیرابی ملنے والی تھی وہ مسیحا کہ روز اول سے قیامت تک پیدا ہو نے والے انسانوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو اِس مسیحا کے پیروں سے اٹھنے والی خاک کو بھی چھو سکے ۔جذبوں کا حکمران ، جسموں اور روحوں پر حکومت کرنے والا قیامت تک آنے والی اندھی اور کثیف روحوں کو روشن کرنے والا ، مُردہ دلوں کو اپنے سوز ِ دل سے زندگی کی حرارت بخشنے ، سنگلاخ زمینوں کی طرح بنجر روحوں کو روشن کرنے والا ایک ایسا مسیحا جس کے قدموں سے اُٹھنے والے غبار کا ایک ذرہ جس پر بھی پڑا وہ سونے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
صدیوں سے سسکتی تڑپتی انسانیت کی پیاس بجھانے کے لیے حضرت آمنہ کے لال 9یا 12ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن فجر کے وقت رحمت دو عالم دنیا میں تشریف لائے آپۖ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح نورانی اور آنکھیں قدرت الہی سے سر مگیں۔آپ کا نام محمد ۖ رکھا گیا ۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے پورے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت ایوان ِ کسرٰی کے چودہ کنگورے گر گئے۔ فارس کا ہزاروں سال سے جلتا آتش کدہ بجھ گیا۔ عرب کے سارے بت منہ کے بل گرے اور سر بسجود ہو گئے بحیرہ سا وہ خشک ہو گیا اس کے گرجے منہدم ہو گئے۔ حضرت آمنہ کے لال کے نور سے ساری کائنات جگمگا اٹھی اور آپ کی خوشبو سار اعالم معطر ہو گیا۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
info@noorekhuda.org