اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برصغیر کی دو انتہائی خطرناک خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی ایک غیر متوقع مشترکہ تصنیف The spy chronicles نے بھارت میں پاکستان کے حوالے سے جو اثرات چھوڑے وہ تو الگ، لیکن اس کتاب نے پاکستان کے سیاسی و عسکری حلقوں، دفاعی تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ چونکہ اس پر فوج کو تحفظات ہیں اس لیے مذکورہ کتاب پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے تب تک گریز ہی کروں گا کہ جب تک اسد درانی کی جانب سے جی ایچ کیو کو وضاحت نہ پیش کردی جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اسد درانی کو 28 مئی کے روز جی ایچ کیو میں طلب کیا گیا ہے جہاں ان سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ کے ساتھ لکھی گئی کتاب میں بیان کردہ واقعات پر وضاحت طلب کی جائے گی اور وہ اپنی پوزیشن واضح کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں بیان کردہ تمام تفصیلات پر ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی سمجھی گئی ہے، اس ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کا اطلاق تمام حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں پر ہوتا ہے۔
جہاں تک میں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں جو باتیں اسد درانی نے کہی ہیں، وہ زیادہ تر جھوٹ، دروغ گوئی اور مضحکہ خیزی پر مبنی ہیں جبکہ اکثر جگہوں پر انہوں نے اور کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی جانب سے ’’میں سمجھتا ہوں‘‘ اور ’’شاید‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔
اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ کام بھی کرتی ہیں اور رابطہ بھی رکھتی ہیں تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں جیسے کہ ’’را‘‘ نے پرویز مشرف پر ہونے والے حملے سے پیشگی پاکستان کو آگاہ کردیا تھا، روس نے امریکا میں دہشت گردی کے واقعات سے سی آئی اے کو آگاہ کیا تھا۔ ایسے بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں جن میں دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے دیگر ممالک کو آنے والے خطروں سے آگاہ کیا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیں ہوتا کہ دشمن ملک آپ سے ہمدردی یا محبت کرنے لگا ہے، بلکہ یہ ایک بین الاقوامی ’’میوچل سیکرٹ سیکیورٹی شیئرنگ‘‘ ہوتی ہے جس کے تحت ممالک ایک دوسرے کے مفادات کو دیکھتے ہیں اور اپنے مفاد کے مطابق فائدے لیتے ہیں۔
پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل اسد درانی نے اگر بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ امر سنگھ دلت کے ساتھ مل کر اگر کوئی کتاب لکھی ہے تو ویسے یہ کوئی معمولی بات اس لیے بھی نہیں کہ اس سے پہلے کم از کم میں نے کبھی نہیں پڑھا یا سنا کہ کسی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہوں نے اپنے تجربات پر کوئی مشترکہ کتاب لکھی ہو۔ اس میں مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کوئی معمولی دشمن تسلیم نہیں کیے جاتے۔ دنوں ممالک کے درمیان 2 بڑی اور کئی چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں جبکہ سرحدی جھڑپوں کا تو کوئی گنتی شمار ہی نہیں۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے روایتی دشمن ہیں اور روایتی دشمنوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کا ایک ساتھ مل کر ایک ایسی کتاب شائع کرنا جس میں ملکی سلامتی کے متعدد واقعات اور راز ہوں، قابل تشویش تو ہے لیکن یہاں میں اس کتاب کی ایک اور اہم چیز کی جانب نشاندہی کرنا چاہوں گا۔
ویسے تو اس کتاب میں بے تحاشا فضولیات ہیں، اپنی ہی باتوں سے اختلاف اور مضحکہ خیزی ہے لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اسدردرانی کو بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق چیف امرسنگھ دلت نے اپنا ’’کولیگ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں۔ کا عام مطلب ساتھ کام کرنے والا اور ایک ساتھ کسی پروجیکٹ پر کام کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ تو یہاں امر سنگھ دلت نے اسد درانی کو ’’کولیگ‘‘ دانستہ کہا ہے یا غیر دانستہ؟ اس کی ہر صورت تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ اسد درانی کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اسد درانی پاکستان آرمی کی متنازع ترین شخصیات میں شامل رہے ہیں۔ 1990 میں آئی جے آئی بنانے اور سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی بات کھلنے کے بعد 1992 میں لیفٹنیٹ جنرل اسد درانی کو اس وقت کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے برطرف کردیا تھا۔
اسد درانی فوج کے کوئی معمولی افسر نہیں تھے بلکہ یہ آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کے سربراہ رہ چکے تھے جبکہ اپنی برطرفی کے وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اتنے کلیدی اور اہم عہدوں پر رہنے والے کسی جنرل کو عہدے سے زبردستی نامناسب طریقے سے ہٹانا اس شخصیت کی ساکھ کو اچھا خاصا مشکوک بنا دیتا ہے۔
آئی ایس آئی کے سابق سرابرہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل اسد درانی کے بارے میں بہت بری رائے رکھتے تھے۔ اے پی ایس کا سانحہ ہوا تو اسد درانی نے کہا کہ یہ ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ (دو طرفہ نقصان) ہے۔ سیاستدانوں میں پیسے انہوں نے ہی بانٹے اور تحقیقات میں کھلے عام اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ہاں! میں نے پیسے بانٹے۔
اسد درانی کی شخصیت کو جانچنے کےلیے یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت پیش کروں گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اصغر خان کیس میں اسد درانی نے ایک بیانِ حلفی (affidavit) عدالت میں جمع کروایا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ داران، خواہ وہ سابق ہی کیوں نہ ہوں، ایسے بیان حلفی پیش نہیں کرتے۔ شعبہ جاتی زبان میں انتہائی خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات و دستاویزات کو ’’ہائیلی کلاسیفائڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے کاغذات/ دستاویزات پر جلی حروف میں eyes only بھی لکھا جاتا ہے، یعنی آپ اس کا زبان سے تذکرہ بھی نہیں کرسکتے۔ ایسے میں یہ شخص بیان حلفی جمع کراتا ہے، وہ بھی بطور سابق سربراہ آئی ایس آئی۔ حالانکہ جب آپ ایسے کسی اہم عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو عمومی حلف کے ساتھ ساتھ کا حلف بھی اٹھاتے ہیں جس کا اسد درانی نے لحاظ نہیں رکھا۔
پاکستان میں رہنے والے بیشتر لوگوں کو پاک بھارت تنازع کی اصل وجہ معلوم ہی نہیں۔ وہ وہی بولتے اور سمجھتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔ بھارت کا قدیم ترین نظریہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ ہے جو بھارت کی قومی پالیسی بھی ہے۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ کچھ لوگ سمجتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں اور پاکستان اور بھارت ایک ہی تہذیب کے پروردہ ہیں جو ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ وہی نظریات ہیں جن کی بھارت پاکستان میں پرورش کررہا ہے۔ بھارت پاکستان میں ’’ہائبرڈ وارفیئر‘‘ (hybrid warfare) اور ’’چوتھی نسل کی جنگ‘‘ کو کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک جنگی حکمت عملی ہے، ایک ایسا مسئلہ جسے ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں۔
’’فورتھ جنریشن وارفیئر‘‘ کیا ہے؟ اس حوالے سے طارق اسماعیل ساگر نے اپنی کتاب ’’خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گردی‘‘ میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے پاکستان کے قیام، دو قومی نظریئے اور بھارت کی تقسیم کو مسخ کرکے مؤثر انداز میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ خصوصاً 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ تصور بڑی شدت سے سامنے لایا گیا کہ اسلام کا رشتہ کوئی رشتہ ہی نہیں۔ اگر یہ کوئی مضبوط حوالہ یا رشتہ ہوتا تو اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے دو ٹکڑے نہیں ہوتے۔ اسی طرح ’’را‘‘ کی جانب سے پاکستان کے مختلف حلقوں اور قومیتوں میں اس بات کی تکرار کروائی جاتی رہی ہے کہ اگر ہندوستان متحد رہتا تو مہاجر ہوکر پاکستان میں بدترین زندگی گزارنے والے آج بہتر حال میں ہوتے۔ ہندوستان کی تقسیم سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں مسائل کا اضافہ کیا گیا۔
غرض ’’را‘‘ نے پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وارفیئر کی نفسیاتی جنگ بڑی کامیابی سے لڑی اور آج پاکستان میں رنگ، نسل، زبان اور مذہبی و سیاسی نظریات کی بنیاد پر بے شمار جماعتیں اور گروہ وجود میں آچکے ہیں۔ یہ ہے ’’را‘‘ کا وہ فورتھ جنریشن وارفیئر کا حربہ جس کے تحت پاکستان کو (خدانخواستہ) ختم کرکے اسی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی مسلسل کوشش جاری ہے کہ جو بھارت کا قدیم ترین سیاسی منصوبہ ہے اور جس پر بھارت میں آنے والی تمام حکومتوں کا اتفاق بھی ہے۔ فورتھ جنریشن وارفیئر کی تفصیل خاصی طویل ہے جس کے طریقہ کار کے بارے میں پڑھ کر روح فنا ہوجائے کہ کس طرح دشمن اپنے عزائم میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ اگر آپ بالغ نظری سے تمام صورت حال کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ یہاں قابل اجمیری کا ایک شعر منظر کی درست ترجمانی کررہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اسد درانی اور امر سنگھ دلت کی جانب سے لکھی گئی اس کتاب میں جو بھی باتیں کی ہیں وہ کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ البتہ ان سے بھارت، امریکا اور دیگر دشمن ممالک کو تقویت ضرور ملتی ہے۔ اسد درانی کی امر سنگھ دلت کے ساتھ دبئی، استنبول اور سنگاپور کے ہوٹلوں میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران ہونے والی گفتگو پر مبنی اس کتاب میں کشمیر، ایبٹ آباد، کلبھوشن، حافظ سعید اور پاکستان کے دیگر اہم اور حساس موضوعات پر تبادلہ خیال شامل ہے۔ درانی صاحب کتاب میں بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو بھارت لے جائے گا۔ موصوف اس موقع پر پاکستان کے مقدمے کو مضبوط کرنے کے بجائے پاکستانیوں کو مزید مایوس کرتے ہوئے دشمن کو خوش خبری سنارہے ہیں کہ بھارت اپنے جاسوس کو پاکستان سے نکال لے جائے کا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے بھارت جو چاہتا ہے وہ کرے گا؛ اور پاکستان اس کے سامنے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ میں اسد درانی کے اس جملے کو یہاں لکھنا بھی نہیں چاہتا جس میں انہوں نے چانکیہ کے اکھنڈ بھارت کے نظریئے کا خیرمقدم کیا ہے۔
یہ کتاب لکھنے کا معاملہ اتنا ہی سادہ نہیں۔ یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں۔ وہاں کی اکثریت ہندو ہے جو پاکستان کے خلاف ہے اور ابھی درانی صاحب نے جس شخص کے ساتھ کتاب لکھی ہے وہ پہلے بھی پاکستان دشمنی میں بیوقوفانہ باتیں کرچکا ہے۔
’’را‘‘ کے اسی سابق چیف، امر سنگھ دلت نے 2015 میں ایک کتاب لکھی تھی ’‘‘ جس میں دلت نے مضحکہ خیز انداز اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ آئی ایس آئی ایک تیسرے درجے کی خفیہ ایجنسی ہے جو اپنے مفادات کےلیے معصوموں کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سیکڑوں منصوبے میں نے ناکام کیے۔ یعنی ملکی خفیہ ایجنسی کی تضحیک جو درحقیقت ملک کی تضحیک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آئی ایس آئی نے کشمیر میں جو مجاہدین تیار کیے تھے، میں نے اپنی بہتر حکمت عملی سے ان کو خرید کر ان کو پاکستان کے ہی خلاف استعمال کیا۔
یہاں ایک اور اہم بات بتاتا چلوں کہ تازہ کتاب (اسائی کرونیکلز) اپنی اشاعت سے قبل ہی پی ڈی ایف فارمیٹ میں لاکھوں لوگوں تک پہنچادی گئی۔ گویا اس کتاب کی اشاعت کا مقصد آمدنی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کومضبوط طریقے سے ہر خاص و عام تک پہنچانا تھا۔ اس کتاب میں متعدد جگہوں پر جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور اپنی کہی ہوئی باتوں سے اختلاف کیا۔
ایک جانب موصوف کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے ایبٹ آباد آپریشن میں وزیراعظم گیلانی اور آرمی چیف جنرل پرویز کیانی کو امریکا نے اعتماد میں لیا تھا تو دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ ایک سابق آئی ایس آئی افسر کو، غالباً جس کا نام سعید بتایا جارہا ہے، 50 ملین ڈالرز دیئے گئے۔ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں جو ایک ہی وقت میں ایک ہی کتاب میں ایک ہی مصنف کہہ رہا ہے۔ اگر اعتماد میں لیا گیا تھا تو یہاں پاکستانی جیل میں شکیل آفریدی کیا کررہا ہے؟
اسد درانی نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بھارت نے کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شرکت کےلیے اسد درانی کو ویزا جاری نہیں کیا جس وجہ سے اسد درانی تقریب رونمائی میں شرکت نہیں کرسکے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام پر اسد درانی نے بھارتی حکام کو ایک پیغام پہنچایا جس میں بھارتی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے ویزا جاری نہ کرکے انہیں ’’پاکستانی عقابوں‘‘ کے غیظ و غضب سے بچالیا ہے۔
یہ وہ تمام حقائق ہیں جو اس کتاب میں موجود ہیں اور دیگرتحریر کردہ مواد میڈیا رپورٹس میں آچکا ہے۔
میری عزیز ہم وطنوں سے درد مندانہ اپیل ہے کہ خدارا پاکستان کے خلاف کام کرتی ہوئی، بھارت کی ’’کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ ( کو سمجھیں۔ ہمارے ارد گرد بھارتی ’’را‘‘ کے اتنے ایجنٹ موجود ہیں جن کی تعداد پر آپ کو یقین نہیں ہوگا۔ ہمارے میڈیا میں، اسپتالوں میں، تعلیمی اداروں میں، غرض کہ ہمارے ملک کے ہر شعبے میں یہ لوگ ہیں۔ یہاں ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں خود پہچاننا ہوں گی۔
ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانتے ہوئے اپنے علم و ہنر میں اتنا اضافہ کرلیں کہ دشمن کی جانب سے مولوی یا عالمِ دین کے روپ میں ہمارے درمیان بھیجا گیا کوئی درندہ، کوئی سیاستدان، پروفیسر یا ہمارے سیکیورٹی اداروں کی صفوں میں موجود دشمن، کوئی بھی آسانی سے ہمیں ورغلا نہ سکے۔ ہم ایک بار پھر امن و امان والے پاکستان کو ویسے ہی بلکہ اس سے بھی بہتر طریقے سے دنیا کی امامت کےلیے تیار کرسکتے ہیں، اگر ہم خود احتسابی کا آغاز کردیں:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
دنیا میں اکثر سابق فوجی و حکومتی عہدیدار اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان اپنی ملازمت کی مدت مکمل کرنے کے بعد اپنی سرگزشت لکھتے ہیں جس میں اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے، میرا خیال ہے کہ ایسا دیگر ممالک میں نہیں ہوتا ہوگا۔ اسد درانی سے پہلے جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اپنی کتابوں میں کیا کچھ کہہ چکے ہیں؟ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں کئی ایک مقامات پر ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جہاں قومی سلامتی خطرے میں پڑتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بھی فوجیوں، سابق وزرائے اعظم اور دیگر اہم عہدوں پر رہنے والے افراد کے حوالے سے بھی کوئی معتبر ادارہ ہونا چاہیے جو کسی بھی قسم کی نشریات و اشاعت اور انٹرویو سے پہلے تجزیہ کرے کہ وہ کسی بھی طور پر ملکی سلامتی پر سوالیہ نشان تو نہیں لگا رہا؟
جی ایچ کیو کو بھی ریٹائرڈ افسران کی کتابوں کے حوالے سے کوئی ایسا پبلی کیشن ادارہ بنانے کی ضرورت ہے جیسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ خود امریکہ میں بھی سی آئی اے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پنٹاگون اور امریکی صدارتی دفتر کےلیے بھی یہ طریقہ کار ہے کہ کسی بھی قسم کی اشاعت سے پہلے یہ ادارے اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں اشاعت کی اجازت ملتی ہے کہ ان کتب میں کوئی ایسی چیز تو نہیں جو قومی سلامتی کےلیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔