اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ مجموعی طور پر 330 ووٹ کاسٹ کئے گئے جن میں سے اسد قیصر نے 176ووٹ حاصل کئے، ان کے مدمقابل متحدہ اپوزیشن کے نامزد کردہ خورشید شاہ نے 146 ووٹ لئے جبکہ 8 ووٹ مسترد ہوئے۔
ایوان میں جیسے ہی اسپیکر کے منتخب ہونے کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ نون کے ارکان نے نعرے بازی شروع کر دی جس پر تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے بھی بھرپور جواب دیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی پی رکن شازیہ مری نے اعتراض اٹھایا جس پر دوبارہ گنتی ہوئی۔ ووٹ ڈالنے کا سلسلہ صبح ساڑھے دس بجے کے بعد شروع ہوا اراکین نے باری باری آکر ووٹ کاسٹ کیا۔
عمران خان توجہ کا مرکز بنے رہے، عمران خان بنی گالا سے کاررواں کی صورت میں قومی اسمبلی پہنچے تو میڈیا نے گھیر لیا، میڈیا کی جانب سے پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا وزیراعلیٰ پنجاب کا نام جلد فائنل کرنے کے اعلان کر دیا جائے گا۔ اسکوربورڈ کی صورتحال پر صحافی کے سوال پر ان کا کہنا تھا پچ اچھی ہے، ٹاس بھی جیت لیا ہے۔
قومی اسمبلی میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب عمران خان اپنا ووٹ کاسٹ کرنے لگے تو ان کے پاس اسمبلی کارڈ نہ تھا جس پر پیپلز پارٹی کے پولنگ ایجنٹ نے اعتراض کر دیا تاہم اسپیکر کی مداخلت پر عمران خان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت مل گئی۔ آصف زرداری، بلاول بھٹو اور شہباز شریف بھی ووٹ کرنے آئے۔
اپوزیشن کی جانب سے نامزد امیدوار سپیکر قومی اسمبلی خورشید نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا دعا ہے حکومت اگلے 5 سال پورے کرے، حکومت کو وعدے پورے کرنے کیلئے موقع دیں گے، یہ پارلیمنٹ ملک کی خودمختار پارلیمنٹ ہے۔ انہوں نے کہا امید ہے ہم اس پارلیمنٹ کے تقدس کو بحال رکھیں گے، ماضی میں بھی تاریخ رہی کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا ہماری بھرپورکوشش ہوگی کہ پاکستان کے آئین و قانون کیلئے کردار ادا کریں، ہم نے ہمیشہ صبر و تحمل سے جمہوریت کو قائم رکھا، کسی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کہا بلاول بھٹو کی قیادت میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کیا، پارلیمنٹ سے باہر رہنا جمہوری اقدار نہیں، خورشید شاہ کا اظہار رائے جمہوری ہے۔ انہوں نے کہا ایوان کے تقدس کو پروان چڑھانا ہے تو جمہوری رویوں کو اپنانا ہوگا، خورشید شاہ کے ساتھ اپوزیشن بنچز پر بیٹھ کر کام کیا، حزب اختلاف کے حقوق کو تسلیم کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ایم کیوایم پاکستان، بی این پی، بی اے پی، مسلم لیگ ق، جی ڈی دے اور آزاد اراکین کا حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہیں، عباسی صاحب کے ارشادات بھی سنے، وہ آج حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک دوسرے کی عزت ضروری ہے، کبھی ایسی بات منہ سے نہیں نکالی جس پر شرمندگی ہو، سابق حکومت نے گلہ بھی کیا کہ آپ کا رجحان اپوزیشن کی طرف ہے۔ انہوں نے کہا خواجہ آصف نے تنقید کی کہ آپ استعفے کیوں منظور نہیں کرتے، میرا نام لے کر کہا گیا اسپیکر نہیں مانتے، کہا گیا میرا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف زیادہ ہے، مشکل وقت میں خورشید شاہ نے میرا ساتھ دیا جو قابل تعریف ہے۔
یاد رہے اسد قیصر 15 نومبر 1969 کو پختونخوا کے ضلع صوابی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہایئر سکینڈری سکول صوابی سے حاصل کی اور اسکے بعد یونیورسٹی آف پشاور سے گریجو ایشن کی۔
اسد قیصر نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف جوائن کی اور اپنا سیاسی کیرئر بطور ایک ورکر کے شروع کیا اور پھر ضلع صوابی کے صدر کے عہدے تک پہنچے، 2008 میں انکو پختونخوا میں تحریک انصاف کا صوبائی صدر بھی بنایا گیا اور وہ عہدہ اسد قیصر نے 2011 تک برقرار رکھا۔
مارچ 2013 میں اسد قیصر نے پارٹی الیکشن جیتا اور عام انتخابات میں این اے 13 اور پی کے 35 کی نشستوں پر صوابی سے حصہ لیا ، جسکے نتیجے میں انہوں نے دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی، لیکن اسد قیصر نے صوبائی نشست کو برقرار رکھا، اسکے بعد ان کو پختونخوا اسمبلی کی جانب سے سپیکر منتخب کیا گیا جو عہدہ اب تک برقرار ہے۔ الیکشن 2018 میں اسد قیصر نے این اے 18 صوابی اور پی کی 44 سے سے کامیابی حاصل کی۔