تحریر: محمد یاسین صدیق
اس کتاب کے مطالعہ سے میں ملا ایک محب وطن انسان، شاعر، دانشور سے جس نے نوحہ لکھا ہے مسلمانوں کے زوال پر اور مشروط امید دلائی عروج کی، مشروط علم، عمل، اسلاف کی پیروی سے ہے۔یہ کتاب تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔لیکن پڑھتے ہوئے آپ کی نظروں کے سامنے مسلمانوں کی تاریخ کے کئی واقعات گھوم جاتے ہیں ۔یہ کتاب فلسفے کی کتاب نہیں ہے لیکن دوران مطالعہ بہت سے فلسفوں کا نچوڑ آپ کو پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ کتاب علم کی کتاب ہے ،تجربے کی کتاب ہے ،حکایت کی کتاب ہے۔ تہذیب کی کتاب ھے۔ اصل میںیہ شاعری کی کتاب ہے ۔ لیکن اس میں یہ سب کچھ ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔کتاب کا آغاز ایک حمدسے ہوتا ہے اس کے بعد نعت رسول ۖ ہے دونوں میں سے ایک ایک شعر دیکھیں۔
کیڑوں کو رزق مل گیا پتھر کی پیٹ میں۔۔ کیسے کہیں نہ سارے کہ مولا ہے چار سُو
نبیۖ کے نام سے اپنی دُعا کو جوڑ دیتا ہوں۔۔کبھی میری دُعائوں کا اثر میلا نہیں ہوتا
اس کتاب میں ہر شعر ایک درد لیے ہے ،یہ درد شاعر کا اپنا نہیں بلکہ امت مسلم کا ہے ،ہرپاکستانی کاہے ۔اس میں آنسو ہیں ،آہیں ہیں ،امیدیں ہیں ،۔شاعر نے اپنی کتاب میں لب و رخسارکے قصیدے نہیں لکھے ،بے مقصد شاعری نہیں کی،نہ ہی وقتی لطف ان کا مقصد ہے ۔انہوں نے بامقصد شاعری کی انہوں نے محبوبہ کی شان میں قصیدے نہیں لکھے مگر ہاں قصیدے لکھے ہیں اپنے اسلاف کے قصیدے۔اچھی رسم و رواج کے قصیدے ۔شاعر دکھی ہے محبوب کے بچھڑ جانے سے نہیں بلکہ اپنی اقدار و رایات کو چھوڑ دینے سے ،معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی پر لیکن وہ مایوس بھی نہیں ہے ۔انہوں نے سطحی شاعری کیوں نہیں کی اس پر ان کے یہ شعر دیکھیں
میں اپنی قوم کے رنج و الم سے ، خوب واقف ہوں
نہیں مجھ سے بیاں ہوتیں لب ورخسار کی باتیں
“‘اسلاف کی دستک ” کے شاعر محمد ایوب صابر اپنے اشعار میں ایسے حوالے دیتے ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ وہ زمانے کی بصیرت رکھتے ہیں(ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمانے کی بصیرت رکھتا ہو۔فرمان رسول اکرم ۖ ) ۔ وہ اسلاف کی تاریخ سے واقف ہیں ،اور مسقتبل پر ان کی نظریں ہیں ۔مطالعہ انسان ،مطالعہ کائنات ان کا شوق ہے ۔وہ اس پر بہت شاکی ہیں کہ آج مسلمان تن آسان ،عیش پسند ہو گئے ہیں کاہلی دیمک کی طرح امت مسلم کے وجود کو کھا رہی ہے۔
رسول اکرم ۖ کی ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلمان بہت زیادہ تعداد میں ہوں گے لیکن ان کی وقعت نہ ہوگئی اس کی وجہ موت کا خوف اور دولت سے محبت بتانے کے بعد ان سب کا سبب کاہلی بتایا ۔ ۔اور ہم ہیں کہ اس پر غور کرنے کی فرصت بھی نہیں ہے ۔حالانکہ قرآن پاک میں غور و فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
فرصت ملے کبھی تو میں کونے میں بیٹھ کر۔۔۔اپنی تنزلی کے ہی اسباب ڈھونڈ لوں
کاہلی سستی بنا ہے جس کا طرزِ زندگی۔۔۔۔ اُس کو رہتی ہے سدا تازہ بہانے کی تلاش
محمد ایوب صابر نے زمانے کے سرد وگرم دیکھے ہیں ۔وہ حالات کی بھٹی میں سے گزر کر کندن بنے ہیں ،جو ان پر گزری ہے ،جو انہوں نے پڑھا ہے ،جو انہوں نے زمانے سے سیکھا ہے ،اسی کو انہوں نے خوبصورت الفاط کا لباس پہنا کر غزلوں کا روپ دیا ہے ۔ان کی بعض غزلیں ایسی ہیں جن کے تمام کے تمام اشعار اس قابل ہیں کہ ہر ایک شعر پر ایک کالم لکھا جائے ۔میں ان شا اللہ اپنے آنے والے کالمز میں ان سے فیض اٹھاتا رہوں گا ۔اور کچھاشعار تو ایسے ہیں جن پر کتاب لکھی جا سکتی ہے صرف ایک مثال اس شعر کو دیکھیں۔
اپنے جینے کے مقاصد سے ہوئے ہیں بے خبر
کٹ رہی ہے زندگی ایام کی دہلیز پر
میں نے زندگی میں چند ہی کتابیں ایسی ہیں جن کو دو مرتبہ پڑھا ہو ان میں سے ایک اسلاف کی دستک بھی ہے ۔ جس کے ایک ایک شعر کے ایک ایک لفظ پر شاعر نے محنت کی ہے ۔محمد ایوب صابر اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر دوسروں کے لیے روتا ہے ،ان کے لیے ہنستا ہے ،سوچتا ہے۔ ان کا لہجہ ہمدردانہ ہے وہ مسائل کے ساتھ مسائل سے نکلنے کے راستے بھی بتاتے ہیں ۔ان کا اپنے ہم عصروںمیںاپنا ایک منفرد لب و لہجہ ہے۔
جلد بازی میں بگڑ جاتا ہے صابر سلسلہ
فیصلہ کرتا ہوں میں ہر زاویے کو دیکھ کر
ملت کی تو بقا ہے فقط اتحاد میں
کیا مل گیا ہے نسخہء اکسیر چھوڑ کر
ان کے اشعار میں زندگی کی تلخیوںکا اظہار بھی ہے اور سکھوں کا بھی ،ناکامی کے دکھ کا بیان ہے تو ساتھ ناکامی کی وجوہات کا بھی ۔سب سے بڑھ کر یہ کتاب ہمارے ماضی ،حال کا سچا آئینہ ہے ۔وہ ایک حساس انسان ہیں ،شاعر سنا ہے ہوتے ہی حساس ہیں ،جہاں وہ انسان کی بے حسی سے شاکی ہیں وہیں اس بات کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ ابھی کچھ انسانوں میں انسانیت کا درد ہے یہ دونوں احساس جب شعر کے پیکر میں ڈھلے تو اپنے اندر تاثیر لیے ہوئے ہیں کہ قلب کوتسخیر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
آج بھائی بھائی میں دولت کی خاطر جنگ ہے
کیسے کہہ دوں یہاں حرص و ہوس باقی نہیں
ابھی بھی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں صابر
میں کیسے کہہ دوں ہے سارا سماج پتھر کا
ان کی شاعری میں سب سے اہم بات مسلمانوں کے دور عروج کے نظریات ،حالات ،واقعات ،تجربات ،کی عکاسی ہے ۔جس کا مقصد عصر حاضر میں زوال کے اسباب کا خاتمہ ہے تاکہ مسلمان اپنے آپ کو پہچان سکیں ۔منافقت،ریاکاری اور جھوٹ سے ان کو نفرت ہے وہ اسے پاکستانی معاشرے کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں ۔لیکن اپنی بات کو تلخی سے نہیں کہتے دل میں اتر جانے والے لب ولہجہ کے ساتھ قاری کو ان برائیوں کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ محمد ایوب صابر کی شاعری بے حد صاف ستھری، سادگی کے حسن سے آراستہ، عشق و محبت کی روایتی شاعری سے دور، ، فکر انگیز، پر تاثیر،دو ٹوک اور بامعنی ہے انہوں نے اسلامی منظرنامے سے بہت سے شعری پیکر تراشے جن میں ایک تازگی کا احساس ہے ۔ زندگی کے دْکھوں سے شاعری کشید کرنے والے ، سیدھے سادے انسان ہیں ، خو ش مزاج ہیں انہوں نے اپنے لئے ایک ایسا راستہ نکالا ہے جو فوری طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔وہ مسلمانوں کی حالت زار پر جہاں افسوس ظاہر کرتے ہیں وہیںوہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں تو آج بھی کامیابی ہمارے قدم چوم سکتی ہے۔
مرے اجداد نے تو علم کے ابواب کھولے ہیں
یونہی گونجے گی صدیوں تک مر ے اسلاف کی دستک
وہ جن کے دم سے ، ہم تھے زمانے میں معتبر
میں نسلِ نو میں پھر وہی آداب ڈھونڈ لوں
جو مثبت سوچ اور خدمت کا جذبہ ، ساتھ مل جائے
تو ممکن ہے کہ تُو ہی قوم کا معمار بن جائے
کیسا ظلم ہے کتنا اندھیرا ہے ،کہاں انصاف ہے۔ عام آدمی دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاروں کی ہے ۔ہمارے سابقہ موجودہ حکمران غربت کے خاتمے کے لیے لمبی لمبی تقاریر تو کرتے ہیں ۔نعرے لگاتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے ، نعروں سے غربت مٹ نہیں سکتی
میں دیواروں پہ لکھے بے سبب نعرے مٹاتا ہوں
بے گھر پڑے ہیں لوگ تو، خیموں میں آج بھی
پر رہنما بیان سے آگے نہ جا سکا
پاکستان میں اب ایک رواج چل نکلا ہے کہ شعری و ادبی کتابوں کو مفت حاصل کیا جاتا ہے ۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں یہ کہ کتابیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان کے لیے چند سو خرچ کیے جائیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب معیاری ادب کو بھی کوڑیوں کے مول بیچنا پڑتا ہے ۔اس سے ایک تو اہل علم جس نے اپنے شب وروز کے خون سے کتاب لکھی ہوتی ہے اور اس کو شائع کروانے پر بھی نہ جانے اس کو کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی قدر پھر بھی نہیں ہوتی۔خوب صورت سرورق، کاغذ اور چھپائی کے پس ورق محمد ایوب صابر کی ملکوتی مسکراہٹ لیے تصویر کتاب ” اسلاف کی دستک” ہاتھوں میں لیتے وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتاب اتنا متاثر کرے گئی کہ میں قارئین سے اس کے مطالعہ کی سفارش کروں گا۔
تحریر: محمد یاسین صدیق