لاہور (ویب ڈیسک) اپنے اکلوتے بیٹے ہمایوں کے ساتھ تمام تر محبت اور خاندانی بادشاہت کی روایت مضبوط ہونیکے باوجود ہندوستان کے مغل فرمانروا ظہیر الدین بابر نے اپنے ایک مصاحب سے بڑی عجب بات کہی۔ کہنے لگا۔میں کبھی کبھی یہ بھی سوچتا ہوں کہ تخت نوجوان شیر خان کے حوالے کر دوں نامور کالم نگار فاروق عالم انصاری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور شہزادہ ہمایوں کو کتابوں ، پھولوں اور پرندوں کی صحبت سے لطف اندوز ہونے کیلئے آزاد کر دوں۔ بابر کو اپنے بیٹے ہمایوں کے مقابلہ میں شیر خان میں جہانبانی کی بہتر صلاحیت نظر آئی تھی ۔ وہ جانتا تھا کہ اس طرح مغل تاج و تخت کی بہتر حفاظت ہو سکے گی ۔ یہ کچھ غلط بھی نہیں تھا۔لیکن بابر یہ بھی سمجھتا تھا کہ مغل تخت پر شیر خان کے بیٹھنے سے یہ مغل تخت نہیں رہے گا۔ایسی ہی دو ر اندیشی اور فراست نے میاں نواز شریف کوجاوید ہاشمی سے ایک فاصلہ رکھنے پر مجبور کیا۔ جاوید ہاشمی بہتیرے ’ چڑیوں ہاتھ سندیسے کاگوں ہاتھ سلام‘ بھجواتے رہے لیکن جاتی عمرہ سے انہیں کوئی جواب نہ آیا۔ تحریک انصاف کی صدارت چھوڑ کر اور قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو کرجاوید ہاشمی نے اپنا قد کاٹھ اتنا بڑھا لیا تھا کہ اب وہ ن لیگ کے ’’مالکان‘‘ کیلئے قابل قبول نہیں رہے تھے ۔ میاں نواز شریف کسی انتہائی زیرک سیاستدان کی طرح کوئی بات بھولتے نہیں۔ غوث علی شاہ نے پوچھا تھا کہ کیا جہاز میں ہمارے کھڑے ہونے کیلئے بھی تھوڑی سی جگہ موجود نہ تھی؟ یہ اس شاہی جہاز کا قصہ ہے جو میاں فیملی کوسعودی عرب لے گیا تھا۔جسٹس غوث علی شاہ کا ایک ہی طعنہ انہیں مسلم لیگ کی پچھلی صفوں میں لے گیا۔اب حافظ حسین احمد بلا شبہ ایک بے مثال خطیب ہیں ۔ایسی متین شگفتگی کی ہماری سیاست میں اب کوئی اورمثال نہیں۔ لیکن اس خطیب کو ان کے جماعتی قائد مولانا فضل الرحمٰن نے محض اسلئے اسمبلی میں دوبارہ نہیں بھیجا کہ کہیں ان پررنگ چوکھا نہ چڑھ جائے ۔ یہ رنگ پکے ہوتے ہیں، پھر آسانی سے اترتے بھی نہیں۔ گوجرانوالہ شہر کی سیاسی تاریخ میں قاضی حمید اللہ آندھی کی طرح آئے اور بگولے کی طرح رخصت ہوگئے ۔ انہوں نے خرم دستگیر خان کو ہرایا تھا۔ قومی اسمبلی کے اس الیکشن میں خواجہ صالح دوسرے اور خرم دستگیر تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ اک روز خبرآئی کہ قاضی حمید اللہ پورا برس اسمبلی میں ایک لفظ بھی نہیں بولے ۔ کالم نگار نے انہیں پوچھا ۔ کیا اتنی خاموشی کے عوض حاصل کردہ اسمبلی کی مراعات حلال ہیں؟ وہ خوب آدمی تھے ۔ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بولے ۔ جناب! اجازت کے بغیر ایک لفظ بھی نہیں بولا جا سکتا۔ اسمبلی کے فلور پر تقریر کرنیکی اجازت اسپیکر سے پہلے اپنے جماعتی قائد سے لینا پڑتی ہے ۔ بادشاہ سلامت انتہائی عشق و مستی میں بھی اپنے تخت و تاج سے غافل نہیں رہتے ۔ کسی محمود غزنوی کی خم زلف ایاز کیلئے ساری تڑپ اور بے قراری بجا لیکن خاندانی تخت و تاج کسی ’’ایاز‘‘ کو ہرگز نہیں سونپا جا سکتا۔خاندانی جائیداد اور اثاثے خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں۔ یہ صرف وارثان کو منتقل ہوتے ہیں۔ یہ وارثان بھی اپنی خاندانی عظمت کا ہر دم خیال رکھتے ہیں۔ اجمل خٹک نے اسفند یار ولی سے اختلافات کے باعث اپنی سیاسی راہیں ان سے جدا کرلیں۔ اب درویش اجمل خٹک نے ان کی دی ہوئی گاڑی انہیں واپس بھجوا دی۔ ادھر سے یہ گاڑی اس پیغام کے ساتھ واپس لوٹا دی گئی ’’ہم کسی سے دی ہوئی چیزیں واپس نہیں لیا کرتے‘۔ اس پیغام میں ایک امیرانہ تغافر کے ساتھ ایک جاگیردارانہ طنطنہ بھی تھا۔ پھر ایسے بڑے گھروں کی عورتیں بھی اپنی خاندانی عظمت سے بے خبر نہیں رہتیں۔ پشاور میں عورتوں کے حقوق کیلئے انجمن تحفظ حقوق نسواں بنائی گئی ۔ اس انجمن کا پیٹرن بنانے کیلئے بیگم نسیم ولی خان سے رابطہ کیا گیا۔اس پر وہ غصے میں آگئیں اور بولیں۔ ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہماری قبائلی روایا ت عورتوں کی آزادی کے خلاف ہیں؟ ایسی آزادی کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔ انہیں بتایا گیا کہ آپ بھی تو آخر ایک عورت ہیںاور آزادانہ کھلے بندوں پھرتی ہیں۔ اس پر انہوں نے بہت برا منایا اور غصے میں بولیں۔’’میری بات مت کرو ۔ میں خان زادی ہوں‘‘۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان خان زادیوں کیلئے بہت سی سماجی روایات ترک کرنا پڑتی ہیں۔ پنجابی لوک گیت میں ایک دلہن اپنی داستان غم یوں سناتی ہے ۔ ’’پتراں لئی جاگیر وے بابلا ، دھیاں لئی پردیس‘‘ اب یہاں میاں نواز شریف کو ایک خلاف معمول صورتحال کا سامنا تھا ۔ ان کے دونوں بیٹوں نے پردیس جا کر جائیداد، اثاثے سنبھال لئے ۔ پاکستانی عدالتوں میں مالی کرپشن کے مقدمات کے باعث اب وہ یہاں آنے سے رہے۔ اس طرح ایک خان زادی کے ہاتھ پردیس کی بجائے جاگیر آگئی ہے ۔ اس جاگیر میں ایک سیاسی جماعت کی ملکیت بھی شامل ہے ۔ پھر اس سیاسی جماعت کی ملکیت میں بہت سے اچھا اور موثر لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ یہ سب ان دنوں مل جل کر قوم کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ نا اہلیت ، کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ جمہوریت کے عشق میں مبتلا دانشور انہیں مفت ہاتھ آگئے ہیں۔ یہ پوری دیانتداری سے سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کو جمہوریت کیخلاف مقدمات سمجھے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ نیب آمدنی سے زائد اثاثوں پر حکومتی شخصیات کیخلاف کاروائی سے گریزاں دکھائی دے رہی ہے ۔ پھر مزے کی بات ہے کہ بہت سی اپوزیشن کی شخصیات بھی نیب کے دائرہ اختیارسے باہرمعلوم ہو رہی ہیں۔ بہر حال خاندانی ملکیت خاندان سے باہر نہیں جا سکتی۔ سو یہ سب کچھ ایک ’’دھی رانی ‘‘کو بخش دیا گیا ہے ۔ بے شک مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر سے لے کر جمہوری بادشاہ میاں نواز شریف تک ایک ہی کہانی ہے ۔