پاکستان کی سیاست اور صحافت کا حال کچھ مختلف نہیں۔ کچھ لوگ اپنی نوکری بچانے کیلئے عمران خان پر برستے رہتے ہیں کچھ لوگ اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے نوازشریف پر برسنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ان دونوں کو برا کہہ کر کسی تیسرے کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اس تیسرے شخص کو تو خود اپنے مستقبل کا کچھ پتہ نہیں لہٰذا اب چوتھے کا انتظار کیا جارہا ہے جب چوتھا آئے گا تو تیسرے کے وفادار چوتھے کی شان میں قصیدے کہیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چوتھے کے آنے کے بعد وطن عزیز کے حالات بدل جائیں گے تو اسے اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہئے۔ جب تک پاناما پیپرز کا معاملہ طے نہیں ہوتا پاکستان کی سیاست انتشار کا شکار رہے گی۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے اچھا نہیں کیا۔ انہوں نے کچھ دن پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ مشترکہ اجلاس میں جائیں گے لیکن 30 ستمبر کو لاہور میں کامیاب جلسے کے بعد انہوں نے فیصلہ تبدیل کردیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال اور سرحدوں پر کشیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کے فیصلے پر تنقید کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن کیا وفاقی حکومت سے یہ پوچھنا غلط ہے کہ آپ نے چھ ماہ سے پاناما پیپرز کا معاملہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہڑتالیں اور سیکورٹی فورسز کا ظلم تین ماہ سے جاری ہے لیکن آپ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا خیال تین ماہ کے بعد کیوں آیا؟ اگرپاکستان کو ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے تو وزیراعظم کو بھی غیر معمولی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں اپوزیشن جماعتیں حکومت سے سرجیکل سٹرائیک کا ثبوت مانگ رہی ہیں اس موقع پر پاکستان کی پارلیمنٹ کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور یہ اتحاد قائم کرنے کیلئے وزیراعظم نوازشریف کو غیر معمولی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ وزیراعظم کی طرف سے بلائے گئے آل پارٹیز اجلاس میں شیخ رشید احمد کو مدعو نہیں کیا گیا اور اختر مینگل دعوت کے باوجود نہیں آئے۔ عمران خان نے اپنی جگہ شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری کو بھیج دیا۔ یہ وہ موقع تھا جب وزیراعظم کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود عمران خان اور اختر مینگل کو فون کرنا چاہئے تھا۔ شیخ رشید احمد سے آپ سو اختلاف کریں لیکن اس موقع پر ان کو بلا لیا جاتا تو وزیراعظم کی عزت میں اضافہ ہوتا لیکن وزیراعظم کو صحیح مشورہ نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم صاحب نے بہت سے صحافیوں کو سرکار کا نوکر بنا رکھا ہے۔ ان نوکروں نے شیخ رشید احمد کو آل پارٹیز اجلاس میں نہ بلانے کے فیصلے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا کر اپنی نوکری پکی کی۔ اگر شیخ صاحب کو بلا لیا جاتا اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ اختر مینگل کو بھی فون کر لیتے تو شاید عمران خان کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شہید برہان وانی کا ذکر آیا لیکن ڈاکٹر عاشق حسین فاکتو کا ذکر نہیں آیا۔ فاکتو صاحب کا ایک تعارف تو یہ ہے کہ وہ آسیہ اندرابی کے خاوند ہیں لیکن ان کا اصل تعارف یہ ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور جنوبی ایشیا میں سب سے لمبی قید کاٹنے والے سیاسی قیدی ہیں۔ آسیہ اندرابی کے ساتھ ان کی شادی 1990ء میں ہوئی۔ 1992ء میں انہیں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ ان کی اہلیہ اور چھ ماہ کے بیٹے کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ آسیہ اندرابی اوران کا بیٹا 1995ء میں رہا ہوگئے لیکن فاکتو صاحب پچھلے 24 سال سے جیل میں ہیں۔ جیل میں انہوں نے اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرلی اور 125قیدیوں کو گریجویشن کرائی۔ عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا دی تھی جو 14سال بنتی ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے انہیں 24 سال سے جیل میں بند کر رکھا ہے۔ یہ وہی ہندوستان ہے جس نے جنوبی افریقہ میں بغاوت اور دہشت گردی کے الزام میں 27سال قید کاٹنے والے نیلسن منڈیلا کو حریت پسند قرار دیا لیکن عاشق حسین فاکتو کو 24 سال سے جیل میں بند کر رکھا ہے۔ اس دوران ان کی اہلیہ کئی مرتبہ گرفتار اور رہا ہوئیں۔ آجکل بھی وہ گرفتار ہیں۔ پاکستان کا میڈیا آسیہ اندرابی کانام تو جانتا ہے کیونکہ وہ ہر سال 14 اگست کو سرینگرمیں پاکستان کا پرچم لہراتی ہیں لیکن پاکستان کے عوام کی بڑی اکثریت کو آسیہ اندرابی کے خاندان کی قربانیوں کا علم نہیں اور اسی لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 24سال سے پابند سلاسل عاشق حسین فاکتو کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔ میں نے فاکتو کا ذکر صرف اس لئے کیا ہے کہ کچھ لوگ کشمیریوں کی حمایت کر کے یہ تاثر دیتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بہت بڑا کام کردیا ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے پاکستان کی خاطر اتنی لمبی قید کاٹی ہو۔ فاکتو نے اپنے لئے نہیں پاکستان کیلئے قید کاٹی ہے۔ فاکتو قید کاٹ رہا ہے۔ برہان وانی جان کی بازی لگا رہا ہے اور پاکستان میں کشمیر کے نام پر سیاست کی جارہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو خود کشمیریوں نے اپنی بے مثال جدوجہد کے ذریعہ پوری دنیا میں اجاگر کیا ہے۔ پاکستان نے تو اوفا میں کشمیر کو فراموش کردیا تھا۔ کچھ دن پہلے آسیہ اندرابی سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بھارتی فوج ان کی گرفتاری کیلئے جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے۔ انہوں نے بہت درد بھرے لہجے میں نوازشریف اور عمران خان کا نام لیکر دونوں سے اپیل کی تھی کہ آپ مشکل کی اس گھڑی میں متحد ہو کر اہل جموں و کشمیر کا ساتھ دیں۔ نوازشریف اور عمران خان دونوں کا دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن دونوں کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے سے نفرت کشمیریوں سے محبت پر غالب آچکی ہے۔ کشمیری قوم بھارتی فوج سے لڑ رہی ہے۔ نوازشریف اور عمران خان ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ صرف چند سال پہلے تک یہ دونوں رہنما پرویز مشرف کے خلاف مل کر جدوجہد کررہے تھے۔ پرویز مشرف کو سب سے پہلے بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے غدار کشمیر قرار دیا تھا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بہت بعد میں مشرف کو آئین کا غدار قرار دیا۔ آئین سے غداری کے ملزم کو نوازشریف نے پاکستان سے فرار کرایا اور عمران خان خاموش بیٹھے رہے۔
دونوں یہ بھول گئے کہ جب تک آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا نہیں ملتی پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ پاناما پیپرز کا معاملہ لٹکائے رکھنا اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اس معاملے میں اپنے حکم کا غلام بنانا چھوٹی غلطیاں ہیں لیکن دفعہ چھ کے ملزم کو ملک سے بھگانا اور آئین و قانون کو ایک تماشا بنانا غلطی نہیں بہت بڑا جرم ہے۔ اس جرم کی سزا نوازشریف اس وقت تک بھگتیں گے جب تک وہ وزیراعظم رہیں گے اور ان کے بعد نیا وزیراعظم بھی یہ سزا بھگتے گا۔ جو طاقتور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مشرف کو آئین و قانون کی گرفت سے بچا کر بڑا کارنامہ سرانجام دیدیا وہ یاد رکھیں کہ اپنے ملک کے آئین و قانون کو ’’ایان علی‘‘ بنا کرآپ نے اور آپ کے سیاسی سہولت کاروں نے ملک کی کوئی خدمت سرانجام نہیں دی۔ آ پ کو صرف پاناما پیپرز نہیں بلکہ آئین سے بغاوت کا معاملہ بھی طے کرنا ہوگا ورنہ پاکستان میں کبھی استحکام نہیں آئے گا۔ حامد میر
،بشکریہ جنگ