اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ مسیح توہین رسالت ﷺ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔ 56 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا گیا ہے جس کا آغاز چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے کیا ہے۔ فیصلے میں علامہ اقبال کے اشعار، قرآن پاک کی آیات کے حوالے دیے گئے ہیں جبکہ باچا خان یونیورسٹی میں توہین رسالت ﷺ کے الزام میں قتل کیے گئے طالب علم مشعال خان سمیت توہین مذہب کے دیگر کیسز کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت ﷺ کے الزام میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بری کردیا گیا ہے۔ آسیہ بی بی کی بریت کا 56صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا جس میں سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ فیصلے میں کئی قرآنی آیات اور علامہ اقبال کے شعر کا بھی حوالہ دیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں باچا خان یونیورسٹی میں توہین کے الزام میں قتل کیے گئے طالب علم مشعال خان سمیت توہین مذہب کے دیگر کیسز کا بھی حوالہ دیا۔چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا، ‘یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کوئی کلیم (دعویٰ) کرتا ہے تو اس کو ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرے، تمام کارروائی مقدمہ میں ملزم کے ساتھ بے گناہی کا قیاس ہمیشہ رہتا ہے، چہ جائیکہ استغاثہ شہادتوں کی بنیاد پر ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ملزم کے خلاف جرم کا ارتکاب ثابت نہ کردے’۔عدالتی فیصلے کے مطابق، ‘جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے، اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے، جو کہ فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کے لیے انتہائی ضروری ہے’۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے لکھا، ‘شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو، کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بار ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا، ملزم اور گواہان/ شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین معیارِ ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر استغاثہ کے گواہان ملزم کے لیے عناد رکھتے ہوں تو وہ شک کے فائدے کے اصول کی بناءپر بریت کا حقدار ہوتا ہے’۔آخر میں چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا، ‘متذکرہ بالا وجوہات کی بناءپر یہ اپیل منظور کی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ اور ابتدائی سماعت کی عدالت کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔نتیجتاً اپیل گزار کو دی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کو تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔
اگر کسی دیگر فوجداری مقدمے میں اس کو قید رکھنا مقصود نہیں تو اس کو فوری طور پر جیل سے رہا کیا جائے گا’۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بھی شامل تھے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ محفوظ کرتے وقت حکم جاری کیا تھا کہ کیس کا فیصلہ آنے تک کسی ٹی وی چینل پراس کیس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی جائے گی۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آسیہ مسیح کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کے لیے دائر درخواست مسترد کر دی تھی۔آسیہ مسیح مبینہ طور پر جون 2009 میں ایک خاتون سے جھگڑے کے دوران خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوئی تھی۔ ملزمہ کو نومبر 2010 میں جرم ثابت ہونے پر عدالت نے سزائے موت سنا دی تھی۔سزا کے خلاف آسیہ مسیح نے 2014 میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، عدالت عالیہ نے بھی توہین رسالت میں ٹرائل کورٹ کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔2011میں اسی معاملہ سے جڑے سلسلہ میں پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے قتل کر دیا تھا۔ قتل سے کچھ عرصہ پہلے سلمان تاثیر نے جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کر کے ملزمہ سے اظہار ہمدردی کیا تھا۔سابق گورنر نے ملزمہ کے ہمراہ جیل میں پریس کانفرنس کی تھی۔ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو 2016 میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل سننے والے عدالتی بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل سننے والے بینچ کے سربراہ تھے۔