لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار آصف عفان اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ نجانے قبولیت کی وہ کونسی گھڑی تھی کہ ادھر ذوالفقار علی بھٹو کے منہ سے الفاظ نکلے‘ اُدھر عوام کا مقدر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ایٹم بم کے کریڈٹ کے اصل حقدار تو سر آنکھوں پر‘لیکن نام نہاد چورن بیچنے والے بھی کہیں پیچھے نہیں رہے۔ ایٹمی طاقت بنانے کا چورن بیچنے والوں نے نہ صرف فارن کرنسی اکاؤنٹس پر شب خون مارا بلکہ قرض اُتارو ملک سنوارو جیسی واردات کے ذریعے اپنا سب کچھ سنوارا‘ نہیں سنورے تو عوام کے نصیب نہیں سنورے۔ اچھے دنوں کی آس میں عوام نجانے کن کن کو آزماتے رہے۔ پہلے سے بڑا دھوکہ کھا کر بھی کبھی سبق نہیں سیکھا‘ بلکہ مزید دھوکوں اور جھانسوں کے لیے دوبارہ تازہ دم ہو کر انہیں کو ووٹ دینے پہنچ جاتے رہے۔ ہر بار‘ ہر نجات دہندہ نادہندہ اور ناموافق ہی ثابت ہوا۔ حکمران نے قوم کو گھاس پھونس پر ہی رکھا۔ تاوان اور بھتے دینے والے عوام اپنے نجات دہندوں کو ووٹ بھی پوری تابعداری سے دیتے رہے۔ پیپلز پارٹی نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا چورن بیچنے کے ساتھ ساتھ عام آدمی میں اتنی ہوا بھر دی کہ وہ اپنے وجود میں ہی پھٹتا چلا گیا۔ اس میں اتنے سوراخ ہو گئے کہ نہ وہ سل سکے اور نہ ہی رفو ہو سکے؛ البتہ ان سوراخوں میں نہ صرف پیپ پڑ گئی بلکہ وہ ناسور بنتے بنتے کوڑھ کا منظر پیش کرنے لگے اور انہیں کوڑھ زدہ جسموں کے ساتھ وہ تبدیلی کے منتظر رہے۔ سندھ کے بیشتر عوام بنیادی سہولتوں سے محروم‘ کہیں پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں تو کہیں اناج کے دانے دانے کو‘ اگر یہ مل بھی جائے تو تن ڈھانپنے کو کپڑا اور علاج معالجہ ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور عیاشی کا درجہ رکھتی ہے۔ بھٹو کے لاڑکانہ سمیت نجانے کتنے شہروں میں آج بھی جا بجا کتوں کا راج ہے۔ آوارہ کتوں کے خوف سے عوام گھروں میں محصور ہو چکے ہیں۔ معصوم بچوں سے لے کر بڑوں تک کو یہ کتے یوں بھنبھوڑتے رہے ہیں گویا یہ انسان نہیں سرِ راہ پڑی ہوئی کوئی ہڈی ہو۔ یہ آوارہ کتے آج کل ضرور حیران ہوں گے کہ ان کے بھنبھوڑنے کے لیے چلتے پھرتے انسان ناپید کیوں ہیں۔ ان کتوں کو کیا معلوم سندھ سرکار نے عوام کو کورونا سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن نہیں کیا بلکہ اپنی اہلیت چھپانے کے لیے کیا ہے تا کہ وہ ہسپتال اور علاج گاہیں کہیں منظر عام پر نہ آجائیں جن میں مطلوبہ اور بنیادی سہولیات کبھی میسر ہی نہیں تھیں۔ اسی خوف سے لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ وہ سارے راز چھپانے کے لیے لاک ڈاؤن کیا ہے جس کا پول کھلتے ہی ان کی طرزِ حکمرانی اور لوٹ مار کی داستانیں ان کے لیے مسئلہ بن جائیں گی۔ نہ کسی کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی نہ وہ ہسپتال جائے گا‘ اس طرح عوام ہسپتال میں ذلت اور دھتکار سے بچ جائیں گے اور ادھر سرکار مزید پول کھلنے سے بچ جائے گی۔ اگر حکمران مردم شناس نہیں تو عوام کون سے بندہ شناس ہیں۔ وہ بھی تو ایک ہی بندے اور ایک ہی ایجنڈے سے کتنی دہائیوں سے لُٹتے چلے آرہے ہیں۔ایک مرتبہ دھوکہ کھانے کے بعددوسری مرتبہ حقِ رائے دہی استعمال کرتے وقت اپنی حالتِ زار اور حکمرانوں کی نیتوں پر لمحہ بھر تو غور کر لیتے۔ ہر بار بلکہ بار بار‘ کئی دہائیاں‘ ایک کے بعد دوسرا‘دوسرے کے بعد وہی پہلا اور اس کے بعد اس کا پیش رو‘ اس طرح یہ میوزیکل چیئر چلتی رہی اور لٹنے لٹانے کا سلسلہ جاری رہا۔ نواز شریف ہو یا بے نظیر‘ پرویز مشرف ہو یا آصف علی زرداری
سبھی اس میوزیکل چیئرمیں برابر گیم پلے کرتے رہے۔ پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا لیکن پرائی جنگ کا ایندھن بننے کی دھن میں غیرتِ قومی اور خود مختاری سے لے کر خودداری تک سبھی کچھ لٹا بیٹھے۔ اس جنگ میں کتنے ہی پاکستانی مرد و زَن امریکہ کو پیش کر کے اپنی اطاعت گزاری کا جھنڈا بلند کیا۔ اس جنگ کا جو شدید ردِعمل کا ملک و قوم نے بھگتا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسی طرح انصاف سرکار نے برسرِ اقتدار آتے ہی نیا پاکستان کا نعرہ لگایا تو عوام جھوم اُٹھے کہ دو پارٹیوں کی اجارہ داری اور ملی بھگت سے آزاد ہو کر سکھ کا سانس لیں گے۔مگر نیا پاکستان کیا بننا تھا عوام تو پرانے کو ترس گئے ہیں۔ دھرنوں اور انتخابی جلسوں میں جو دعوے اور وعدے کیے گئے تھے وہ سبھی انتخابی نعرے ثابت ہوئے۔ نہ آئین اور قانون کا راج قائم ہو سکا‘نہ کہیں میرٹ نظر آیااور نہ ہی ان سے گورننس ہو سکی۔ سماجی انصاف اور معاشی انقلاب بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انصاف سرکار بھی سابق حکمرانوں کے سبھی ریکارڈ‘ریکارڈ مدت میں توڑتی نظر آتی ہے۔ کورونا جیسی ایمرجنسی میں نہ کوئی قومی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی وزیر صحت‘ مشیروں اور معاونین سے لے کر ذاتی رفقا و مصاحبین ہی ہر طرف چھائے نظر آتے ہیں۔ عوام سے ووٹ لے کر آنے والے ارکانِ اسمبلی اور وزرا بے وقعتی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا ایمرجنسی میں کیے گئے اقدامات بھی کنفیوژن اور تضادات کا مجموعہ دکھائی دیتے ہیں۔ وفاق سے لے کر صوبوں اور شہروں سے لے کر تحصیلوں تک سبھی کی اپنی اپنی منطق اور اپنی اپنی ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ لاک ڈاؤن میں مستحقین کو دینا دلانا تو دور کی بات‘ جو کچھ دے چکے ہیں نہ اس کا کوئی حساب ہے اور نہ ہی کوئی ریکارڈ۔ اس پر ستم یہ کہ فوٹو سیشن اور امداد کی تقسیم کا ڈھول زور و شور سے جاری ہے کہ مستحقین اور پریشان حال عوام کی چیخ و پکار بھی ا س شور میں کہیں دب کر رہ گئی ہے۔ بات چل رہی ہے کورونا کی تو کچھ احوال وزیراعظم کورونا فنڈ کا بھی ہو جائے۔ اوورسیز پاکستانیوں سمیت اندرون ملک سے بھی دل کھول کر عطیات دئیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کو عطیات دینے والوں میں فیصل ایدھی نے بھی ایک کروڑ کا عطیہ دیا ہے‘ جس پر عبدالستار ایدھی کی روح خلد بریں میں یقینابے چین اور تڑپ رہی ہوگی۔ زکوٰۃ اور صدقات کے عطیات سے اکٹھی ہونے والی اس خطیر رقم پر حاتم طائی بننے والے فیصل ایدھی نے ان تمام عطیات دینے والوں کو بھی حیران کر ڈالا کہ انہوں نے یہ عطیات عبدالستار ایدھی کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے دئیے تھے کیونکہ ایدھی ٹرسٹ کی خدمات نہ صرف منفرد ہیں بلکہ مسلمہ بھی۔ عبدالستار ایدھی کے کاز پر اکٹھی ہونے والی رقم صرف اسی کارِ خیر پر خرچ ہونا چاہیے۔ میں کوئی مفتی یا سکالر نہیں‘ لیکن منطق اور عقل ہرگز ماننے کو تیار نہیں کہ فیصل ایدھی کس طرح حاتم طائی کی ڈمی بن کر وزیراعظم کے پاس ایک کروڑ کا چیک لے کر جاپہنچے۔ البتہ ذاتی جیب سے ایک کروڑ دیتے تو اُن کی فیاضی اور ایثار کی تعریف ضرور کرتا۔ ایک حالیہ کالم میں خبردار کیا تھا کہ کورونائی انتظامات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو معمول کی کارروائی سمجھ کر ہرگز ایزی نہ لیں۔ مارا ماری کے اس گھمسان میں عدالت کا یہ ازخود نوٹس اس جگنو سے کم نہیں جو گھپ اندھیرے میں بھی اپنی موجودگی کا برابر احساس دلاتا رہتا ہے‘ ورنہ عوام کو کیا پتہ کہ زکوٰۃ اور بیت المال سمیت مزاروں کے پیسے کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔ انصاف سرکار نے بیت المال کو لوٹ کا مال سمجھ کر ایک ایسا چیمپئن سربراہ بنا دیا ہے جسے اس کی شہرت کی وجہ سے حالیہ انتخابات میں ٹکٹ نہیں دی گئی تھی۔