آصف جاہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ تعلیم کے لحاظ سے ڈاکٹر ۔پیشے کے لحاظ سے ڈایریکٹر جنرل کسٹمز نارتھ، مشغلے کے لحاظ سے سوشل ورکر، شوق کے لحاط سے مصنف اور ان کی شخصیت کا ایک پہلو سیاح ہونا بھی ہے جس پر کم نظر جاتی ہے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں کتاب میلے کا انعقاد ہوا۔ اس کا افتتاح صدر پاکستان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس کتاب میلے میں نیشنل بک فائوندیشن کی کتب بھی شامل تھیں۔ جس کتاب نے فروخت کے اگلے پچھلے ریکارڈ مات کر دیئے، یہ ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب۔ دوا، غذا اور شفا ہے۔ یہ کتاب دس پبلشرادارے اور بھی شائع کررہے ہیں جو کبھی نہیں بتائیں گے کہ انہوںنے اس کے کتنے ایڈیشن چھاپے اور ان میں سے کتنی کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ ہمارے پبلشرز کا قومی اور اجتماعی المیہ ہے۔ مگرصرف نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے شائع کئے جانے والے ایڈیشنوں کی فروخت کا عالم یہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میںاس کی اٹھارہ ہزار کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور یہ کسی پاکستانی ڈاکٹر کی تصنیف کی فروخت کا ایک ایسا ریکارڈ ہے جس پر ڈاکٹر آصف جاہ تو یقینی طور پر مسرور دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے مداحوں کو بھی اس پر بجاطور پر فخر ہے۔
ڈاکٹروں کی ریٹنگ کا اندازہ ان کی بھاری اور ناقابل برداشت فیسوں یا مہینوں بعد ملنے والی تاریخ سے کیا جاتا ہے مگر ڈاکٹر آصف جاہ کو اللہ نے ایک منفرد نعمت سے نوازا ہے کہ ان کی میڈیکل موضوع پر لکھی گئی کتاب غذا،دوااور شفا کی فروخت نے ملکی ڈاکٹروں کی کتابوں کے مقابلے میں اسے بیسٹ سیلر بنا دیا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے۔ صرف یہ کہ اس کتاب میں ہر بیماری کا ذکر ہے۔ اس کے لئے استعمال ہونیوالی دوائیں بھی درج ہیں اور ان دوائوں کے اچھے برے اثرات کی تفصیل بھی بلاکم وکاست بیان کر دی گئی ہے۔ کتاب کا انداز بیان ا س قدر سہل اور سادہ ہے کہ ہر کوئی اسے سمجھ سکتا ہے۔ نہ اس میں کسی خاص دوا کی پبلسٹی کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کلی طور پر غیر جانبدار ہو کر لکھا ہے۔ انہوں نے کتاب میں عطائیوں جیسے دعوے نہیں کیے ۔ نہ اسپشلسٹ ڈاکٹروں والے نخرے کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے سرکاری نوکری کے ساتھ علاج معالجہ کی طرف توجہ کیوں کی۔ ہو سکتا ہے۔ اس میں خدمت خلق کا جذبہ بھی شامل ہو مگر مجھے لگتا ہے کہ انہوںنے قوم کا قرض لوٹانے کی کوشش کی ہے کہ قوم نے انہیں ڈاکٹر بنانے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کیا مگر وہ سرکاری نوکری کی طرف نکل گئے۔ ملک میں بیسیوں ڈاکٹر سی ایس پی افسر ہیں یا فوج میں فرائض ادا کر رہے ہیں جبکہ ان سب پر میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے پر قوم کا کثیر سرمایہ اورو قت صرف ہوا ۔ مگر آصف جاہ نے محض سرکاری نوکری پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لوگوں کی بیماریوں کے علاج پر روزانہ وقت نکالا۔ وہ لاہور میں تھے تو یہاں ایک ہسپتال بنا لیا جہاں دن رات علاج جاری ہے اور شام کو وہ خود یہاںمشورہ دیتے رہے۔ انہیں فیصل آباد بھیجا گیا تو دیکھتے ہی دیکھتے دو تین ڈسپنسریاں قائم کر دکھائیںاور ان پر بیٹھ کر دکھی انسانیت کے زخموں پہ مرہم رکھا ، اب وہ اسلام آباد گئے۔ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر یہاں بھی ڈسپنسریوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ خودمریضوں کو دیکھتے ہیں اور تسلی سے دیکھتے ہیں۔اور پھر ساری دوائیں مفت دیتے ہیں۔ میںنے پچھلے دنوں ایک ٹیسٹ کرایا۔ میرے کنسلٹنٹ نے کسی حد تک مجھے خوف زدہ کر دیا تھا ۔ میں نے اپنی رپورٹیں ڈاکٹر صاحب کو واٹس ایپ کر دیں ۔ ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا، ایک روز وہ ہماری پی سی آئی اے کی میٹنگ میں آئے۔ میرے ساتھ تشریف فرما تھے، میں نے آہستہ آواز میں گلہ کیا۔ میری رپورٹ پر کوئی رائے ہی نہ دی۔ کہنے لگے ا س میں کچھ ہو تا تو بتا تا۔ ان الفاظ کے پیچھے ان کا گہرا تجربہ بول رہا تھا۔
اب ذرا ان کی کتاب کے مندرجات کا ذکر ہو جائے تاکہ آپ بھی دل چسپی محسوس کریں تواس کتاب کو خرید کر سرہانے رکھ لیں۔ شوگر کسے نہیں ۔ بلڈ پریشر کسے نہیں۔دل کی بیماری بھی عام ہے۔ دل متلتا بھی ہے ۔ ویسے یہ دل کی بیماری نہیں،معدے کی ہے۔ آپ کو الٹیاں آ رہی ہیں ۔ قبض کا شکار ہو گئے ہیں یا پیچش اور اسہال تنگ کر رہے ہیں۔ پورے سر کا درد ہے یا آدھے سر کا درد ہے یا کمر درد ہے یا گوڈے گٹوں میں درد ہے،درد تو کانوں میں ہو سکتا ہے اور پیٹ کے السر کی صورت میں بھی درد کی شکائیت ہو سکتی ہے۔کھانسی۔ نزلہ زکام تو عام بیماریاں ہیں مگر سینے کی انفیکشن ذرا ٹیڑھی ثابت ہو سکتی ہے۔موٹاپا بھی تو ایک بیماری ہے اور بچوں کا سوکڑا پن والدین کے لئے پریشان کن ہے۔،ایک بیماری کا نام مایوسی بھی ہے جسے ڈاکٹر لوگ ڈیپریشن کہہ کر مزید خطر نا ک بنا دیتے ہیں۔پائوںجلتے ہیں ۔ٹانگوں کے پٹھے اکڑ گئے ہیں اور چلنے پھرنے اور لیٹنے سے کسی پل چین نہیں۔ کسی وجہ سے نیند کم ہو جائے،ڈرائونے خوب آنے لگیں ۔ بھوت پریت چمٹ جائیں ۔ میں کس بیماری کا نام لوں اور کس کا نہ لوں۔ اتنی ڈھیر ساری بیماریاں کتاب میں لکھی ہیں کہ ان سب کے ذکر سے خوف آنے لگا ہے۔ بس میرا مشورہ یہ ہے کہ کہیں سے یہ کتاب خریدیں اور آدھی بیماری تو خود نخود ختم سمجھیں ۔ پھر بھی ڈاکٹر یاہسپتال کی ضرورت ہو گی تو ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میںمکمل مشورہ لکھ دیا ہے۔ڈاکٹر آصف جاہ دل سے مسلمان ہیں اس لئے محض دوائوں پر انحصار نہیں کرتے۔ قرآن اور حدیث سے دعائیں اور دوائیں بھی کتاب میں ساری کی ساری لکھ دی ہیں آخرجس نے بیماری دی، شفا بھی تو اسی نے دینی ہے اور یہ نسخہ قرآن میں خدا نے خود بیان کیا ہے تو پریشانی کیسی۔ہمارے دوست محمد رفیق ڈوگر گھٹنے کے درد کی شکائت میں ایک بڑے ہسپتال میں گئے، ڈاکٹروںنے مشورہ دیا کہ کینسر لاحق ہے اورا ٓخری سٹیج پر ہے۔ ٹانگ فوری طور پر کاٹنی پڑے گی۔ رفیق ڈوگر صاحب نے پوچھا ا ٓپ کے پا س بس یہی علاج ہے، ڈاکٹروں نے کہا کہ جی ہاں تو رفیق ڈوگر نے کہا کہ میں اس ذات باری تعالی سے رجوع کرتا ہوں جس نے یہ مرض لگایا ۔ وہ شفا دینا چاہے گا تو اسے وہیں روک سکتا ہے۔ وہ گھر واپس آے تو سیرت نبوی پر ایک کتاب لکھی، دوسری لکھی، تیسری لکھی۔ اب انہیں کہیں درد محسوس نہیں ہو رہا تھا، ڈاکٹروں کے پاس چند برس بعد پھر گئے ۔ ڈاکٹروںنے تصدیق کی کہ کینسر کا نام ونشان تک نہیں ہے اب رفیق ڈوگر تفسیر قرآن لکھ رہے ہیں اور اللہ پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے بھی طب نبوی سے ایسے نسخے لکھے ہیںجن میں شفا ہی شفا ہے اور اللہ کے حکم سے ہے مگر آپ کا یقین کامل ہونا ضروری ہے۔
آپ کے اندر اس کتاب کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، اگر جواب ہاںمیں ہے تو آپ سمجھ لیں کہ آپکی آدھی پریشانیاں غائب۔ باقی کے لئے ڈاکٹر بھی دستیاب ہیں۔ ہسپتال بھی ہیں۔ حکیم بھی ہیں، علاج بھی ہے اور طب نبوی کے آزمودہ نسخے بھی ، بس ایک ا حتیاط کہ کسی عطائی کے ہتھے نہ چڑھیں ۔ یہ مشورہ بھی ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب میں درج ہے۔
اگرآپ کو کوئی بیماری لاحق نہیں تو پھر بھی گھر میں یہ کتاب ضرو ررکھیں۔تسلی تو رہے گی نا!کہ بیماریاں چڑیلوں کی طرح نہیں چمٹیں گی۔