لاہور(ویب ڈیسک) وفاقی وزیرِ پیٹرولیم عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت کسی بھی شعبے کو ناجائز رعایتیں نہیں دے رہی، گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کا معاملہ حل کیا، اس سے سالانہ 45 ارب کا فائدہ ہو گا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی مد میں مختلف کمپنیوں کو 208 ارب روپے معاف کرنے کے معاملے پر طویل بحث ہوئی۔ اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیرِ پٹرولیم عمر ایوب اور معاون خصوصی ندیم بابر نے میڈیا کو خصوصی بریفنگ دی۔ معاونِ خصوصی ندیم بابر کہتے ہیں کہ جن صنعتوں نے جی آئی ڈی سی وصول کیا ہے، انہیں کوئی چھوٹ نہیں ملے گی، کھاد کمپنیوں کے ساتھ حکومتی معاہدے سے پہلے فرانزک آڈٹ ہو گا، ٹیکس کم کر کے گیس کی قیمتیں کم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کابینہ ارکان نے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی مد میں مختلف کمپنیوں کو 208 ارب روپے معاف کرنے کا معاملہ اٹھا دیا۔ عمر ایوب نے بتایا کہ گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس 2011ء میں لاگو کیا گیا تھا، مختلف عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر وصولی رکی ہوئی تھی، یہ معاملہ حل کر دیا ہے جس سے سالانہ 45 ارب کافائدہ ہوگا، حکومت کسی بھی شعبے کو ناجائز رعایتیں نہیں دے رہی۔ معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ جن صنعتوں نے جی آئی ڈی سی وصول کیا ہے، انہیں کوئی چھوٹ نہیں ملے گی، کھاد کمپنیوں کے ساتھ حکومتی معاہدے سے پہلے فرانزک آڈٹ ہو گا، ٹیکس کم کر کے گیس کی قیمتیں کم کرنا چاہتے ہیں۔ وفاقی وزیر پاور ڈو یژن عمر ایوب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جی آئی ڈی سی کوئی نئی چیز نہیں ہے، 2011ء کی حکومت نےجی آئی ڈی سی لگایا، 2017ء کی حکومت نے سی این جی سیکٹر پر اس حوالے سے معاہدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ آرڈیننس میں ترمیم کر کے فارنزک آڈٹ کی شق شامل کی جائے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی وجہ سے جی آئی ڈی سی 2011ء میں لگایا گیا تھا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کی مد میں 217 ارب روپے جمع ہوئے، سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر روکا کہ جس مقصد کے لیے جمع ہو رہے ہیں اس پر لگ نہیں رہے، ہمارے پاس دو آپشنز تھے کہ معاملہ کورٹ میں چلتا رہے یا حل نکالا جائے، جی آئی ڈی سی میں کمی سے کھاد کی قیمتیں کم ہونی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی آئی ڈی سی ایشو حل کرنا چاہتے تھے تاکہ عوام کو ریلیف ملے، تاہم کسی سیکٹر میں کسی کو رعایت نہیں دی جا رہی ، سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اس معاملے کا آغاز کیا۔ عمرایوب کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ آرڈیننس شفاف طریقے سے لایا گیا ہے، پاور سیکٹر میں رعایت دینے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، فرٹیلائزر سیکٹر سے فارنزک آڈٹ کرنے کا معاہدہ کیا جائے گا۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ نےگزشتہ 10سال کےقرضوں کی تفصیلات طلب کرلیں جبکہ آئندہ پانچ برسوں کے لیے قرضے کی ادائیگی اور منصوبہ بندی پر اکتوبر میں بریفنگ بھی طلب کر لی ، کمیٹی نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیااور مہنگائی سے متعلق سفارشات تیار کرنے کے لیےڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کی سربراہی میں تین رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔وزارت خزانہ کے حکام نےبتایا کہ400ارب روپے کےمقامی سکوک بانڈجاری کرنےکافیصلہ کیاہےجبکہ اس سال ایک ارب ڈالرکےانٹرنیشنل سکوک بانڈزجاری کرنے کاہدف بھی ہے۔ سیکریٹری خزانہ نےبتایاکہ مالی سال 19-2018 کےبجٹ خسارےکاہدف 2818ارب روپے مقرر تھا ،