لاہور (ویب ڈیسک) ناصر درّانی مستعفی ہوئے اور طاہر خان سبکدوش کر دیئے گئے۔ جناب امجد سلیمی لائے گئے اور فیصلہ ہوا کہ پنجاب پولیس میں سیاستدانوں کا کردار باقی رہے گا۔ باقی تاریخ ہے۔ باقی نتائج ہیں۔گر یہ فطری ہے، مرنے والوں پہ رویا ہی جاتا ہے۔ایک دوست کی وفات پرنامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ظفر علی خان نے کہا تھاکہ آج بھی آنسو نہ بہیں تو اللہ نے یہ جذبہ پیدا ہی کیوں کیا تھا۔فطرت مگر حادثے اس لیے برپا نہیں کرتی کہ رویا جائے۔ بلکہ اس لئے کہ ان سے سیکھا جائے۔ آئے دن عرض کرتا ہوں کہ امریکہ میں ایک نائن الیون ہوا تھا اور برطانیہ میں ایک سیون سیون۔ اس کے بعد ایسا المیہ پھر نہ ہوا۔ افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد 1992ء میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جو اب تک جاری ہے۔سبق سیکھنے والے سبق سیکھتے ہیں، بھولنے والے بھول جاتے ہیں۔ غور و فکر کی توفیق جذبات کے شکار معاشروں کو نہیں ہوا کرتی۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔ نہ ہو جس کو خیال، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ۔۔ گورنر پنجاب نے کہا: ایسے المناک واقعات دنیا بھر میں پیش آتے ہیں۔ بجا ارشاد، مگر کیا اس کے بعد ردّ عمل بھی اسی طرح کا ہوتا ہے، یہ کہ مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی جائے۔ کراچی شہر کی طرح، نیویارک کے ہارلم میں غنڈوں کا راج تھا۔ پھر اس پر کیا انہوں نے صبر کر لیا تھا؟ گزشتہ صدی کے اوائل میں لندن کا حال بھی یہی تھا۔پچھلی صدی کو چھوڑئیے، دو تین برس پہلے لندن میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ شاید ساہیوال کے سانحے سے کہیں زیادہ المناک صورتِ حال۔ چوہدری سرور زیادہ جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔ ہر روز لارڈ نذیر کو میں فون کیا کرتا۔ کرید کرید کر تفصیلات پوچھتا۔ ایک بار بھی مصروفیت کا بہانہ لارڈ صاحب نے کیا نہیں۔ رات گئے تک عدالتیں کام کرتیں۔ وڈیو فلمیں دیکھ دیکھ کر مجرموں کو شناخت کیا گیا۔ ایک ایک فسادی انجام کو پہنچا۔ جولیانی نیویارک کے میئر بنے تو غنڈوں کے لیے صفر رواداری کا انہوں نے اعلان کیا۔ اس اعلان پہ سو فیصد عمل ہوا۔ 2000ء میں نیویارک جانا ہوا تو بھائی سے فرمائش کی کہ ہارلم جانا ہے۔ کسی کو ہمراہ کر دو۔ اس نے کہا: ہارلم میں کیا رکھا ہے۔ اب وہ ایسا ہی پر امن محلہ ہے، جیسا کوئی اور۔ جون 1995ء کے کراچی میں بوری بند لاشیں پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا۔ صورتِ حال نیویارک سے بدتر تھی۔ 1989ء سے 1992ء کے درمیان دو لاکھ بھارتی شہر کراچی میں آن بسے تھے۔ وہ دبئی کا ویزہ حاصل کرتے۔کراچی میں عارضی قیام کی اجازت لیتے اور ہجوم میں کھو جاتے۔ میجر عامر نے‘جو مہاجرت یعنی امیگریشن کے ڈائریکٹر تھے، سراغ لگایا تو یہ سلسلہ تھما۔ پھر بھی کارروائی ادھوری رہی۔ دس لاکھ بنگالی کراچی میں آن بسے تھے۔ برما اور ایران والے ان کے سوا۔ سب سے بڑھ کر افغان۔پہاڑ ایسی مشکل یہ کہ الطاف حسین کی پشت پر ”را‘‘ کے علاوہ سی آئی اے اور ایم آئی سِکس بھی کھڑی تھی۔ ایم آئی سِکس آج بھی اس کی محافظ ہے۔ امریکی سفارت خانہ، ایم کیو ایم کے لیڈروں کی فرمائش پر فیاضی سے ویزے جاری کرتا۔ الطاف حسین کا جانشین بننے کے بعد ڈاکٹرفاروق ستار نے سب سے پہلے کراچی میں امریکی قونصل جنرل کی خدمت میں حاضری دی تھی۔ ایم آئی سِکس کا منصوبہ یہ تھا کہ طوائف الملوکی پھیلے تو گوادر سے کراچی تک کی پٹّی الگ کر دی جائے۔ برسوں پہلے پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں سندھ کے سینکڑوں علیحدگی پسندوں کو تربیت دی گئی تھی۔ بعد ازاں، انہی دلاورں نے دادو کی پہاڑیوں میں ایم کیو ایم کے انتہا پسندوں کو تخریب کاری کے گُر سکھائے۔ الطاف حسین کے ہاتھ اتنے لمبے تھے کہ گرفتاری کا اندیشہ ہوتا تو قاتل گروہ سری لنکا، سنگاپور، جنوبی افریقہ اور کینیڈا میں پناہ لیتے۔ کینیڈا ہی کی ایک عدالت نے ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔میڈیا یرغمال تھا۔ الطاف حسین کی تقاریر براہ راست نشر کی جاتیں۔ ہزاروں بے گناہ قتل کر دیئے گئے۔ اخبار نویسوں کی مجال نہ تھی کہ احتجاج کریں۔ احتجاج کیا، بہت سے ان سے جا ملے۔ لاہور کے تین ممتاز اخبار نویس ایم کیو ایم کی مدح کیا کرتے۔ عمران خان نے احتجاج کیا تو ایک طوفان الطاف کے کارندوں نے کھڑا کر دیا۔مجید نظامی مرحوم کے سوا، کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔ کراچی کے ڈان اور ہیرالڈ کے سوا خبر چھاپنے کی کوئی جرأت نہ کرتا۔ اس ناچیز سمیت تین چار صحافیوں کے سوا ٹی وی پر اشارے میں بھی کوئی بات نہ کرتا۔ ایک صلاح الدین تھے جو ڈٹ کر کھڑے رہے… اور شہید کر دیئے گئے۔ خاکسار سمیت، معترض اخبار نویسوں کے خلاف، کردار کشی کی مہمات چلائی گئیں۔ عباس اطہر مرحوم سے کہا گیا کہ وہ اپنے نواسوں کی فکر کریں۔ کراچی کے بعض صحافی ایم کیو ایم کے لیے تاویلیں تراشا کرتے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا: آپ کو قاضی نہیں بننا چاہئے۔۔دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، وزارتِ عظمیٰ پر فائز ملک معراج خالد نے کہہ دیا تھا کہ 2012ء تک پاکستان کا وجود باقی نہ رہے گا۔ جون 1995ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو، جنرل عبدالوحید کاکڑ اور صدر فاروق لغاری کی پشت پناہی سے آپریشن کا آغاز ہوا۔ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر ڈٹ کر پولیس کے ساتھ کھڑے رہے۔ تنہا وہ شہر کی سڑکوں پر گھومتے۔ سب سے بڑھ کر بے نظیر نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ تمام اختیارات ایک ڈی آئی جی کو سونپ دیئے گئے۔ اسی بیکار سمجھی جانے والی آئی بی کو سراغ رسانی کا فرض سونپا گیا اور اس نے کمال کر دکھایا۔صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم اور سپہ سالار سے پولیس افسر نے کہا کہ اقوام متحدہ میں ایک نہایت شاندار ملازمت کی انہیں پیشکش ہے۔ اس کے باوجود کراچی میں قیامِ امن کی ذمہ داری قبول کرنے پر وہ آمادہ ہیں۔ شرط یہ ہے کہ حکمرانوں سمیت کوئی مداخلت نہ کرے۔خاص طور پر آصف علی زرداری اور ان کے والد گرامی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایک تھانے دار کے تقرّر کی سفارش کی تو ڈی آئی جی نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ایسا ہی جواب حاکم علی زرداری کو ملا۔ پولیس افسر سے آنجناب نے فرمائش کی کہ ایک انسپکٹر ان کے باورچی کا فرزند ہے۔ ان کے سر پہ سوار رہتا ہے،اسے تھانے دار بنادیا جائے۔ ڈی آئی جی نے کہا: میں آپ کو دوسرا باورچی ڈھونڈ دیتا ہوں۔ جون کے آخر میں کارروائی کا آغاز ہوا۔ 14 اگست کو ڈبل سواری پہ پابندی ختم کر دی گئی۔ جنوری 1996ء تک دہشت گردی مکمل طور پہ ختم ہو گئی۔ اپنے پیروکاروں سے الطاف حسین نے کہا: تم وہاں جا چھپو، روشنی کی کرن، جہاں نہ پہنچ سکتی ہو۔الیکشن 1997ء میں میاں محمد نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے۔ 500 دہشت گرد رہا کر دیئے اور تاوان کے طور پر سرکاری خزانے سے 50 کروڑ روپے ادا کئے۔ 1999ء میں پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو آپریشن میں شریک افسروں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میں سے ایک کے سوا سب کے سب ہلاک کر دیئے گئے۔پنجاب میں بڑھتے پھیلتے جرائم کے بہت سے اسباب ہیں۔ سب سے بڑا شاید یہ ہے کہ پختون خوا کے برعکس ارکان اسمبلی اور وزرا کی فرمائش پر پولیس افسروں کے تقرر کا فیصلہ ہوا۔ناصر درّانی مستعفی ہوئے اور طاہر خان سبکدوش کر دیئے گئے۔