تحریر: آصفہ ہاشمی
مشہور ضرب المثل ہے کہ “جس کا کام اسی کو ساجھے”۔ ضرورت سے زیادہ عقلمند لوگ، اگر بال تراشنے والے بہترین حجام کی قینچی کے آگے لباس کا کپڑا جھونک دیں گے تو شاید وہ مونچھیں سمجھ کر ستر کا حصہ ہی کاٹ ڈالے۔ دنیائے فٹ بال کے بہترین گول کیپرکو ہاکی کے گول میں کھڑا کر دیا جائے تو وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بنکر دو درجن گول ہی کھائے گا۔ کیا عجب تماشہ ہے کہ یہاں پردیس میں اک دکا پاکستانی میڈیا کے نو وارد مسخرے کہیں عام نہ پختہ کار خاتون کو مذہبی دانشور بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور کہیں ایسے ایسے لوگوں کو صحافت کی دنیا میں جھونکا جا رہا ہے جو اس پیشے کی الف جیم سے بھی واقف نہیں خیر پردیسی صحافت پر الله رحم کرے ..آج جو دو لفظ سیکھ لیتا ہے وہ اپنے آپ میں اہک پرہیزگار انسان اور دوسروں کو ایک ایسی پستی میں دھکیل دیتا ہے جہاں وہ ایک متقی عالم اور پرہیزگار کے ٹھپے لگوا چکا اب وہ چاہے تو جتنی آیات مبارکہ اتریں انکو مد مقابل جس کو چاہے ا ن پر ان آیات کا بھی جو کفار پر اتریں ان آیات کی کسوٹی پر پرکھے گا
مزے کی بات یہ ہے کہ اب کو ئی بیمار ہو یا زخمی ہو اس غریب پر بھی ایک افسانہ گھڑ دیا جائیگا گا ان کے علم کی روح سے جب دل چاہا فتوی گھڑ دیا جب ، من مچلا کسی پر تہمت لگادی کسی ایک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی اگر ملائے تو وہ بھی دوسرے کسی کو سنا سنا کر
یعنی بکری نے دودھ تو دیا لیکن مینگنیاں ملا کر
ہمارے کچھ صحافی خواتین و حضرات اس نتیجے پر پہنچے کہ اس قسم کے لوگ ذہنی مریض ہیں لیکن میں سمجھتی ذہنی مریض اتنے مکار و عیار نہیں یہ ننھے منھے شیاطین کی ایک قسم ہے جو احساس کمتری کا شکار ہیں. انکو عالم یا علما نہیں کہیں کچھ دین پر اور دنیا پر رحم کریں میں نہ تو کوئی عالم دین ہوں اور نہ کوئی بڑی ہدایت یافتہ ہوں لیکن دین اسلام کی جو تھوڑی بہت سمجھ ہے اور جو بچپن سے سیکھا اس کے حوالے سے کچھ گوش گزار کرنا چاہتی ہوں
قرآن کریم میں الله سبحان تالا ارشاد فرماتا ہے :
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرہ: 213)
ابتداءمیں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے، جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روئی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جا چکا تھا۔ انہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاءپر ایمان لائے۔ انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھایا، جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے“۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالہ اور اسلام کی خدمت عبادت کے طور پر ہونی چاہئے موجودہ مادی دور میں دین اسلام کا نام الاپنے والوں کے عزائم دین اسلام خدمت نہیں بلکہ اس میں ان کے ذاتی مفادات ہیں اسلام میں پہلی بات تقوی یقین اور نیت پر منصر ہوتی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب یہاں ایک مخصوس خاتون کوئی کام یا پروگرام کرتی ہیں تو خلوص نیت کے بجایے مقابلے اور لان تان سے ہی کیوں کرتی ہیں کسی کے مال کو یا اس کی کی گیی کوششوں کو حرام بنا کر اپنی رپورٹ پیش کرنا اور ساتھ ہی اپنی صفائیاں دینے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے بھائی !!! نمبر ایک قول فعل اور کردار اس قسم کا ہونا چاہئے کہ آپ پر لوگوں کو یقین ہو اگر یہ نہ ہو تو لوگ ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں ایک نظر سے پڑھتے ہیں اور دوسرے لمحے بھول جائیں
اللہ کی رضا کےلئے دین اسلام کےلئے کام کرنے والے رزق رہنن کا فکر نہیں ہونا چاہئے اور اللہ تعالہ پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ دولت کے پیچھے بھاگنے سے نہیں ملتی بلکہ وہ خود تلاش کرکے انسان تک پہنچتی ہے یہاں کوئی پیسے کا بھوکا ہے کوئی شہرت کا بھوکا ہے پہلے تو خود اپنے آپ کو دیکھے کہ میں دن میں کتنے گناہ کرتا ہوں یا کرتی ہوں جن کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے مثلاً کسی کی غیبت کرنا حسد کرنا بات بات پر جھوٹ بولنا تانا زنی دوستی ہو بغیر کسی مطلب کے اور ایسی ہو کہ ایک دوسرے کو ایک دوسرے پر اندھا اعتماد ہو پھر ہے مخلصی کہ اس کو قدم قدم پر محسوس ہو کہ کون میرے ساتھ بے لوث مخلص ہے
اسلامی تاریخ میں مکی دور کو دیکھیں جس میں نہ پردہ تھا نہ نماز تھی اور نہ زکوہ تھی لوگوں ایک بنیادی ہدایت کی طرف توجہ دلایی گی اللہ ایک ہے جو نظام چلا رہا وہ برحق ہے اس کے سوا کوئی نہیں دوسرا مرحلہ آیا کہ حضور اس کے پیغمبر ہیں جب لوگ اس بات پر قائل ہوگئے تو حقوق العباد کی بات آئی پھر حقوق اللہ کی بات ہوئی جب اسلام کا نزول ہوا نبوت کا اعلان ہوا حضور کی سیرت پڑھیں ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بعض لوگوں دوسرے پسند نہیں کرتے تھے حضرت بلال کی مثال لے لیں کیونکہ ان لوگوں کا پیمانہ اور تھا اللہ اور اس کے حبیب کا پیمانہ اور تھا ”ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں کوئی خوف اور رنج نہ ہوگا اور جو اسے قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے“۔ (البقرہ)
اور فرمایا ”تم دونوں (فریق یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ اور جو میرے ”ذکر“ (درس نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کیلئے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: ”پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟ ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں اسی طرح تو ہماری آیات کو، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے“۔ (طہ)
کہاں انسان کا بنایا ہوا گورکھ دھندا اور کہاں وحی کا یہ سرچشمہء ہدایت جو آب رواں کی طرح دل ودماغ میں سرایت کرتا جاتا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہے، اس نور ہدایت سے نواز دے۔ اللھم اجعلنا منھم۔ میں نے قران کی تعلیم آج کل میں نہیں بلکہ بچپن سے حاصل کی اور آج تک کررہی ہوں اللہ کے حضور دعاگو ہوں مرتے دم تک اللہ مجھ پر ھدایت رکھے اور جھوٹھے دین کے کھلواڑ کرنے والوں سے مجھے اور کل مسلمانوں کو ان سے ان کے شر سے بچاے امین ثم امین پاکستان زندہ باد
تحریر: آصفہ ہاشمی